قَالَ رَبِّ انصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ
حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی (١) کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما۔
فہم القرآن: ربط کلام : قوم کے مجبور کرنے پر حضرت لوط کی اللہ کے حضور فریاد۔ اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ حضرت لوط کی بددعا قبول ہوئی جس کے نتیجے میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس حاضر ہوئے انہوں نے حضرت ابراہیم کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی، جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا، لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے، خوشخبری دینے کے بعد ملائکہ نے حضرت ابراہیم سے ذکر کیا کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے، ملائکہ نے انہیں عرض کی اس بات کو جانے دیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوچکا ہے لہذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : ٦٩ تا ٧٦) اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل کیا اور انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ مسائل: 1۔ حضرت لوط کی قوم ہم جنسی کے جرم میں ملوث تھی۔ تفسیر بالقرآن: قوم لوط کا انجام : 1۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاری کے عادی تھے۔ (ھود :78) 2۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 3۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو تہہ بہ تہہ خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82) 4: ہم نے اس بستی کو الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74)