وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کئے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کردی (١) اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ثواب دیا (٢) اور آخرت میں تو وہ صالح لوگوں میں سے ہے (٣)۔
فہم القرآن: ربط کلام : ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بشارتوں سے نوازا جانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی بیوی حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کی تو اس وقت ان کی عمر مبارک تقریباً اسی سال کے قریب ہوچکی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کے وقت جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ میرے رب مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔ ہجرت کے دوران ایک ظالم حکمران نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی رفیقہ حیات حضرت سارہ کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش اللہ تعالیٰ نے اسے معجزانہ طور پر ناکام کیا۔ اس سے متاثر ہو کراس نے اپنی بیٹی ہاجرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقد میں دی۔ حضرت ابراہیم حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ کو لے کر فلسطین کی سرزمین میں آباد ہوئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت کو پہلے حضرت اسماعیل عنایت کیا اور پھر حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی بشارت دی گئی۔ بیٹے اور پوتے کی خوشخبری کے ساتھ یہ بھی خوشخبری دی گئی کہ ابراہیم تیری اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں عظیم صلہ دینے کے ساتھ قیامت کے دن صالحین میں شامل فرمایا لیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث کیے وہ حضرت اسحاق کی اولاد میں تھے۔ حضرت اسماعیل کی پوری نسل میں صرف نبی آخر الزماں (ﷺ) ہی مبعوث کیے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق جس دور سے ہے۔ اس دور کو معاشی تاریخ میں گلہ بانی کا دورشمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت کی سب سے بڑی دولت بھیڑ بکریاں تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اتنا مال تھا کہ بڑے سے بڑا جنگل بھی تنگی واماں کی شکایت کرتا دکھائی دیتا تھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منفر اعزاز : ﴿وَ اِذِابْتَلی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ﴾[ البقرۃ:124] ” جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے عرض کی کہ میری اولاد کو بھی۔ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ہے۔“ تمام مؤرخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ( علیہ السلام) کی عمر نوّے سال تھی۔ قرآن مجید نے ولادت اسحاق (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑابھون لائے لیکن انسانی شکل میں آنے والے ملائکہ کھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ میں ایک خوف محسوس کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ کیفیت دیکھ کر فرشتوں نے فورا اصل حقائق سامنے رکھ دے ئے ساتھ ہی جناب اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور اسکے ساتھ ہی پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری بھی سنا دی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہجرت کے بعد اسماعیل (علیہ السلام)، اسحاق (علیہ السلام) اور پوتا یعقوب (علیہ السلام) عطا فرمائے۔ 2۔ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں بھی بلند مقام عطا فرمایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آخرت میں صالح لوگوں میں شامل فرما لیا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتیازات : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ:114) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم :41) 3۔ بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود :75) 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصٰفت :111) 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو پوری دنیا کا پیشوا بنایا۔ ( البقرۃ:124) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) معبودان باطل کے انکاری اور براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ :4) 7۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء :51)