وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے (١) پھر تو انھیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم۔
فہم القرآن: (آیت 14سے15) ربط کلام : آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ کی پکڑ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے لیے مبعوث کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں ساڑھے نو سو سال سمجھاتے رہے، قوم نے سمجھنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو بار بار یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ (نوح : ٢٤) یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے۔ یہ قوم نوح کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء :116) اس کے ساتھ ہی یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان یہ جھگڑا طول پکڑ گیا ہے اس لیے جس عذاب کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو واقعی ہی سچاہے۔ (ہود :32) تب جا کر اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر گرفت فرمائی اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ البتہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا۔ کشتی اور ڈوبنے والوں کو لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کو مختصر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے کفار اور منافقو! غور کرو ! کہ جب نوح (علیہ السلام) کے دور میں طوفان آیا تو کوئی کافر ایک دوسرے کو نہیں بچا سکا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے کافر بیٹے اور بیوی کو نہ بچا سکے۔ (ہود :46) تمھاری کیا حیثیت اور طاقت ہے کہ تم قیامت کے دن ایک دوسروں کا بوجھ اٹھا سکو ؟ (التحریم :15) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف اس لیے بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے رفقاء کو تسلّی دی جائے کہ آپ لوگوں کو مظالم سہتے ہوئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ گزار ہے۔ غور فرماؤکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے کس قدر دین حق کے راستے میں محنت کی اور کتنی طویل مدت تک ظالموں کے ظلم برداشت کرتے رہے۔ مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا۔ 2۔ جب قوم نے سمجھنے سے انکار کیا تو انھیں غرق کردیا گیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ 4۔ کشتی اور قوم کو آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔ تفسیر بالقرآن: قوم نوح پر آنے والے عذاب کی چند جھلکیاں : 1۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (ہود :43) 3۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر :11) 4۔ قوم نوح پر عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود :40) 5۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور زمین سے جگہ جگہ چشمے ابل پڑے۔ (ہود :44) 6۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ وبرباد کردیا۔ (الشعراء :120)