سورة العنكبوت - آیت 10

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لتے ہیں، (١) ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے (٢) تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں (٣) کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا نہیں ہے؟ (٤)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت10سے11) ربط کلام : اس سورت مبارکہ کی ابتداء میں مومنوں کی آزمائش اور ظالموں کی گرفت کے بارے میں فرمایا۔ اب منافقوں کے کردار کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کا معنٰی ہے چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں ایک منہ بند کیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جاتا ہے۔ جب تک دونوں طرف سے بل بند نہ کی جائے چوہا قابو نہیں آتا۔ یہی منافق کا کردار ہوتا ہے کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرتے ہوئے اسلام کی خوبیاں ذکر کرتا ہے۔ اگر اسے اسلام کے راستے میں کوئی آزمائش آئے تو وہ کفار کی طرف رخ موڑ لیتا ہے۔ منافق کی اسی کیفیت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب انھیں اللہ کے راستے میں تکلیف پہنچتی ہے۔ یعنی اسلام دشمن قوتوں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ کفار کی طرف سے ملنے والی تکلیف کو۔ اللہ کا عذاب سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے فائدہ پہنچتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھی ہیں۔ کیا منافق بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حال سے پوری طرح واقف نہیں ہے ؟ خبردار انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور مومنوں کے درمیان ضرور فرق واضح کرے گا۔ یہ فرق آخرت میں تو ہر صورت واضح ہو کر رہے گا اگر مسلمان آپس میں متحد اور اسلام پر ثابت رہیں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی یہ فرق کرکے دکھلائے گا جس کے نتیجہ میں نبی اکرم (ﷺ) اور صحابہ (رض) کے دور میں منافق رسوا ہوئے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ مسائل: 1۔ منافق اسلام کے راستے میں آنے والی آزمائش کو اللہ کا عذاب سمجھتا ہے۔ 2۔ اسلام سے فائدہ حاصل ہو تو منافق اسلام، اسلام کرتا ہے اگر آزمائش آجائے تو منافق کفار کے ساتھ جا ملتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ منافقوں اور مومنوں کے درمیان ضرور فرق واضح کرے گا۔ تفسیر بالقرآن: منافق کا کردار اور اس کا انجام : 1۔ منافق دغا باز، ریا کار ہونے کے ساتھ بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء :142) 2۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون :1) 3۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون :2) 4۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ:14) 5۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء :145)