وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے (١)
فہم القرآن: (آیت 6سے7) ربط کلام : انسان دنیا میں رہ کر جو کچھ بھی کرے گا اس کا نفع ونقصان اسی کو پہنچے گا۔ اس فرمان میں بھی ظالموں کو ایک طرح کا انتباہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص اچھا ہو یا برا، جو بھی کام کرتا ہے اس کا نفع و نقصان اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نیکی کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی زندگی بھر گناہ کرتا رہے تو رب کی ذات اور اس کی بادشاہی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ ہر کمزوری سے مبرّا اور ہر قسم کی ضرورت سے بے نیاز ہے۔ یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اِ ن الفاظ میں سمجھائی تھی۔ اے میری قوم ! تم اور جو کوئی زمین میں بسنے والا ہے سب کے سب کفر پر جم جاؤ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بادشاہی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ” غنی“ اور تعریف کے لائق ہے۔ (ابراہیم :8) اسی بات کو نبی آخر الزماں (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْئًا) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو اگر تمھارے پہلے، پچھلے جن و انس سارے کے سارے فاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو بھی میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ نیکی یا بدی کرنے کا انسان کو ہی فائدہ یا نقصان ہوگا۔ 2۔ حقیقی ایمان رکھنے اور صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بہترین جزا دے گا۔ 3۔ نیک لوگوں سے بتقاضاء بشریت جو غلطیاں ہوں گی اللہ تعالیٰ انھیں ضرور معاف کرے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں سے ہر لحاظ سے بے نیاز ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر انسان اپنے اچھے، برے اعمال کا ذمہ دارہے : 1۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر :43) 2۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔(یس :54) 3۔ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کا صلہ اسی کے لیے ہے اور جو برے اعمال کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرے گا۔ (حٰم السجدۃ:46) 4۔ ہر شخص اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ :141) 5۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : 66۔68) 6۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( النجم :38)