وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
خیال رکھئے کہ یہ کفار آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تبلیغ سے روک نہ دیں اس کے بعد کہ یہ آپ کی جانب اتاری گئیں، تو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (١)
فہم القرآن: (آیت87سے88) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو مزید ہدایات : اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (ﷺ) کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ سے پہلے جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے ہم نے ان کی طرف یہی پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اس لیے اس کا حکم ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے۔ (الانبیاء :25) نبی آخر الزماں (ﷺ) کو خطاب کرتے ہوئے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں میں اس بات کا اعلان فرمائیں کہ میں بنی نوع انسان کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے اس ذات نے اپنا رسول منتخب فرمایا ہے جو زمین و آسمانوں کا بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے اس کا حکم ہے کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ (الاعراف :158) یہ وہ دعوت ہے جس کی ہر زمانے میں مشرکوں اور خدا کے باغیوں نے مخالفت کی ہے۔ اس کی پاداش میں کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا، کچھ کو ان کے گھر بار اور وطن سے نکالا گیا۔ باقی انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اذّیت ناک تکلیفیں دی گئیں۔ انہی تکالیف اور مصائب کا نبی (ﷺ) اور آپ کے رفقاء کرام کو سامنا کرنا پڑا۔ جس قدر آپ خلوص اور محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرتے اسی قدر آپ کو تکالیف دی جاتیں۔ نماز کی حالت میں آپ کی گردن پر غلاظت سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی رکھی گئی۔ حرم کے اندر آپ کے گریبان کو پکڑا گیا۔ آپ کے ساتھ رشتے ناطے توڑے گئے، مکہ کے بھرے بازار میں آپ کو لہولہان کیا گیا، آپ کے ساتھیوں کو سر عام پیٹا گیا اس کے باوجود آپ قرآن کے ابلاغ اور توحید کے پرچار سے پیچھے نہ ہٹے۔ ان حالات میں آپ کے دل کی ڈھارس اور فریضہ تبلیغ کی فرضیت کا مزید احساس پیدا کرنے کے لیے یہ حکم نازل ہوا۔ اے نبی (ﷺ) ! حالات کی نزاکت اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود آپ نے مشرکین کے سامنے قرآن کی تلاوت کرنا اور توحید کی دعوت دینا ہے۔ اِنھیں بار بار بتلاؤ کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور عبادت کے لائق اور مشکل کشا، حاجت روا نہیں، اس لیے اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکنا ہے اور نہ کسی کے حضو رہاتھ پھیلانے ہیں۔ اسی کا حکم جاری ہے اور ہر کسی نے مر کر اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ لہٰذا مشرکوں کی مخالفت آپ کو دعوت حق سے نہ روک دے اور نہ ہی اپنے رب کے ساتھ کسی کی عبادت کرنا، آپ کا رب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم دائم رہنے والا ہے، اوّل، آخر اسی کا حکم چلنا ہے اور آپ سب نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک بات ارشاد فرمائی اور میں نے دوسری بات کہی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا رہاوہ جہنم میں داخل ہوگا اور میں نے کہا جو بندہ اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہٖ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُون اللَّہِ أَنْدَادًا ﴾] مسائل: 1۔ داعی حق کو مشرکین کی مخالفت کی پروا کیے بغیر قرآن کی تبلیغ اور توحید کی دعوت کا فریضہ سر انجام دیتے رہنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں اس لیے کسی دوسرے کو پکارنا شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کبھی معاف نہیں کرنا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ 4۔ مرنے کے بعد ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضو رپیش ہونا ہے اس کا حکم ہر حال میں جاری ہے اور جاری رہے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کے ساتھ یا اس کے سوا کسی کو پکارنے کی سزا : 1۔ جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود مانتا ہے اسے جہنم میں ذلیل ورسوا کر کے ڈالا جائے گا۔ ( بنی اسرائیل :39) 2۔ اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہ سمجھو ورنہ ذلیل ہوجاؤ گے۔ ( بنی اسرائیل :22) 3۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ (الشعراء :213) 4۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر :65) 5۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج :31)