إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے (١) وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے (٢) کہہ دیجئے کہ میرا رب اسے بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا اور اس سے بھی کھلی گمراہی میں ہے۔ (٣)
فہم القرآن: (آیت85سے86) ربط کلام : اہل مکہ کے ساتھ نبی اکرم (ﷺ) کا اختلاف قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی مرکزی دعوت توحید سے ہوا۔ اس لیے آخر میں آپ کی نبوت کے بارے میں وضاحت اور توحید کی مخالفت کرنے والوں کا انجام ذکر کیا گیا ہے۔ نبی محترم (ﷺ) کو تسلی دینے اور کفار کے الزام کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔ اے رسول (ﷺ) ! حالات جیسے بھی ہوں قرآن مجید کو لوگوں تک من و عن پہنچانا ہم نے آپ پر فرض قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے آپ کے ذہن میں وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر قرآن نازل کرے گا اور اپنے کام کے لیے آپ کو منتخب فرمائے گا۔ آپ حوصلے اور جوانمردی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام لوگوں کے سامنے پڑھیں اور کھول کھول کر اس کی توحید بیان فرمائیں، کسی اعتبار سے بھی کفار کے ساتھ معاونت نہ کریں یہ قرآن آپ پر آپ کے رب کی طرف سے رحمت بن کر نازل ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کے مقام کو سب سے اعلیٰ اور بہتر بنائے گا، آپ کی کامیابی کا پھریرا بلند ہوگا اور آخرت میں آپ حوض کوثر کے مالک ہوں گے۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون شخص گمراہ ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ آپ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور جہاں تک کفار کے اس الزام کا تعلق ہے کہ یہ قرآن آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ آپ کو بالکل خبر نہ تھی کہ آپ کا رب آپ پر قرآن نازل کرے گا۔ یہ محض اس کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ ” مَعَادْ“ کا معنی لوٹنے کی جگہ ہے جس کا معنی آخرت میں جنت اور دنیا میں کامیابی کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف لوٹنا ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کا یہی مفہوم لیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ﴿لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ﴾ قَالَ إِلَی مَکَّۃَ) [ رواہ البخاری : باب ﴿إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ﴾ الآیَۃَ] ” حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آپ کا مکہ کی طرف لوٹنا ہے۔“ مسائل: 1۔ توحید کا پرچار، قرآن مجید کا ابلاغ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ 2۔ توحید کی سمجھ اور قرآن کا فہم ” اللہ“ کی رحمت ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہدایت پانے والے اور گمراہ شخص کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نزول وحی سے پہلے نبی معظم (ﷺ) نبوت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے : 1۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف :12) 2۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام :50) 3۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے ساری بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا آسمانوں و زمین کا غیب کوئی نہیں جانتا۔ ( النمل :65) 5۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو غیب پر مطلع نہیں کرتا۔ (آل عمران :179) 6۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 7۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس :20) 8۔ اللہ ہی غیب کو جاننے والا ہے اور وہ کسی پر غیب ظاہر نہیں ہوتا۔ (الجن : 26)