قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے (١) کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کردیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے (٢) اور گنہگاروں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی (٣)
فہم القرآن: ربط کلام : قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود قارون کا طرز عمل۔ قوم کے معزز اور صالح لوگوں نے قارون کو بہت سمجھایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے غریبوں، مسکینوں پر مال خرچ کرنا چاہیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت سے باز آنا چاہیے۔ معزز لوگوں کی بات سمجھنے کی بجائے قارون کہنے لگا کہ اس مال میں کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں بنتا کیونکہ یہ میری قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خوشحال کرنا ہوتا تو وہ ضرور انھیں مال دیتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اِ ن کی یہی حالت منظور ہے اس لیے میں اپاہج اور نکمے لوگوں پراپنا مال ضائع نہیں کرسکتا۔ یہی بات اہل مکہ کے کچھ لوگ کہا کرتے تھے۔ جب انھیں سمجھایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمھیں رزق دے رکھا ہے اس میں سے غریبوں، مسکینوں پر خرچ کرو۔ وہ کہتے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو ضرور کھلاتا پلاتا۔ (سورۃ یٰسٓ :47) گویا کہ مشرکین مکہ نہ صرف فرعون اور قارون کی طرح اپنے نبی کے نافرمان تھے بلکہ فکری اور عملی طور پر قارون کے ساتھی بن چکے تھے اس لیے قارون کا واقعہ ذکر فرما کر انھیں نبی اکرم (ﷺ) کی بغاوت اور دنیا کے مال و اسباب پر فخر و غرور کرنے سے روکا گیا ہے۔ لیکن یہ لوگ قارون کی طرح فخر و غرور میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ جس طرح قارون بھول چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو تباہ کرچکا ہے جو جسمانی قوت اور مال و دولت کے لحاظ سے اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔ اللہ تعالیٰ جب مجرموں کی گرفت کرتا ہے تو پھر ان سے یہ نہیں پوچھتاکہ تم کیا کر رہے تھے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے باخبر ہے کہ کون کیا عمل کر رہا ہے۔ باالفاظ دیگر عذاب کے وقت مجرموں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (مُعَاوِیَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ مَکْتُوبَۃٍ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہْوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلوۃ] حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے تمام کی تمام بادشاہت اسی کے لیے ہے اور وہ ہی سب تعریفوں کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو چیز تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نفع نہیں دے سکتا“ مسائل: 1۔ کسی انسان کو دنیا کا مال صرف اس کی لیاقت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نافرمان طاقتور اور مالداروں کو ہلاک کیا ہے۔ 3۔ ہلاک کرتے وقت اللہ تعالیٰ مجرم کے جرائم کے بارے میں سوال نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے بہت سے مجرموں کو دنیا میں تباہ و برباد کیا : 1۔ تمہارے پروردگار کا حکم آچکا کہ ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ (ھود :76) 2۔ ہم نے تم سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔ (یونس :13) 3۔ کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں اور وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والی تھیں۔ (الحج :45) 4۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ (ابراہیم :13) 5۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانعام :47) 6۔ نہیں ہم نے ہلاک کیں بستیاں مگر ان کے رہنے والے ظالم تھے۔ (القصص :59) 7۔ جس نے ہماری آیات سے اعراض کیا وہ ظالم ہے اور ہم مجرموں سے بدلہ لیا کرتے ہیں۔ ( السجدہ :22)