سورة آل عمران - آیت 40

قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہنے لگے اے میرے رب! میرے بال بچہ کیسے ہوگا ؟ میں بالکل بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ فرمایا، اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 40 سے 41) ربط کلام : خطاب کا تسلسل جاری ہے۔ قدرت کاملہ کی طرف سے دنیا میں کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ جن کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے آدمی ان کی توقع نہیں کرسکتا۔ لیکن انسان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سامنے آجاتے ہیں اور آدمی ان کو دیکھ کر حیرت کی تصویر بن جاتا ہے ایسے واقعات پر تعجب کا اظہار کرنے سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہوا کرتا۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات پر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تعجب میں مبتلا ہوجاتے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور زندگی سے متعلقہ کئی واقعات ایسے ہیں جو زمانے میں پہلی اور ایک ہی دفعہ رونما ہوئے۔ ان واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو پوچھا کہ مریم! یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ حضرت مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ خالو جان! یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت کا نتیجہ ہیں وہ جسے چاہے بغیر اسباب اور بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ جناب زکریا (علیہ السلام) کے کلیجے پر چوٹ لگی کہ مریم کو بے موسم پھل اس حجرے میں مل سکتے ہیں تو مجھے اس عمر میں اولاد کیوں نہیں مل سکتی؟ چنانچہ بے ساختہ دعا نکلی اے رب العالمین! مجھے بھی اپنی قدرت کاملہ سے نیک اولاد عطا فرما۔ اس دعا کے صلہ میں جب ملائکہ نے انہیں بیٹے کی خوشخبری سنائی اور کہا کہ اس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ تو زکریا (علیہ السلام) حیرت زدہ ہو کر اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بارِ الٰہ! مجھے کس طرح بیٹا نصیب ہوگا جب کہ میں بوڑھا اور میری بیوی جسمانی طور پر بچہ جننے کے لائق نہیں؟ حالانکہ وہ اس سے پہلے دعا کیا کرتے تھے کہ میری بیوی بانجھ اور میرے بال بڑھاپے سے سفید ہوچکے ہیں اس کے باوجوداللہ! میں تیرے کرم سے مایوس نہیں ہوا۔ (مریم 2تا7) لیکن ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سنائی تو تعجب کا اظہار فرمانے لگے مگر تعجب کا اظہارملائکہ سے کرنے کے بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دینے والا تو وہی ہے اور یہ خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ فرشتہ تو محض پیغام رساں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کے جواب میں ارشاد ہوا کہ میرے بندے ! اللہ اپنے کام کو خود ہی جانتا ہے اور وہ اسی طرح ہی کرتا ہے جس طرح اس کی منشا ہوا کرتی ہے۔ پھر عرض کرنے لگے : اے رب! میرے لیے بیٹے کی کوئی واضح نشانی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ کلام نہیں کرسکو گے ان دنوں خاص طور پر صبح وشام اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے وہ جس طرح چاہے کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بانجھ عورت کو بچہ دے سکتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کو صبح و شام کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں بھی اولاد دیتا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں اولاد دینے پر قادرہے : 1۔ زکریا (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد دی۔ (مریم : 7، 8) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی۔ (ھود : 71، 72) اللہ کا ذکر : 1۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔ (العنکبوت :45) 2۔ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم۔ (البقرۃ:152) 3۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الانفال :45) 4۔ اللہ کو گڑگڑا کر صبح وشام آہستہ یاد کرو۔ (الأعراف :205) 5۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد :28) 6۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف :36) 7۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں ہیں۔ (المنافقون :9) 8۔ اللہ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ (الجن :17)