سورة النمل - آیت 40

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں (١) جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت40سے41) ربط کلام : دیوہیکل جن کے اظہار خیال کے بعد ایک صاحب علم کا ردِّ عمل اور اس کی پیشکش۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قریبی لوگوں میں ایک شخص اٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ میں آپ کے آنکھ جھپکنے سے پہلے آپ کے سامنے ملکہ کا تخت پیش کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہی اس نے ملکہ کا تخت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حضور پیش کردیا۔ تخت دیکھتے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عاجزانہ اور متشکرانہ انداز میں کہا یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا نہ شکری کرتا ہوں جو شکر ادا کرتا ہے اس کے شکر کا اسے ہی فائدہ پہنچتا ہے جو ناشکری کرتا ہے بلاشبہ میرے رب کو اس کی ناشکری کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ نہایت کریم ہے۔ آدمی کو ہر وقت اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن اس موقعہ پر حضرت سلیمان نے اپنے رب کا اس لیے بھی شکریہ ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسے ذہین اور لائق فائق ساتھی دیے ہیں جو آنکھ جھپکنے سے پہلے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ شکر یہ کلمات کے ساتھ ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے وزیروں کو کہا کہ ملکہ کے تخت میں کچھ تبدیلیاں کردی جائیں۔ کیونکہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اسے پہچانتی ہے یا نہیں۔ تخت میں تبدیلی کروانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کی ذہانت کا اندازہ کیا جا سکے تاکہ معلوم ہو کہ وہ اپنے تخت کو پہچانتی ہے یا نہیں پہچان پاتی۔ ان الفاظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اگر وہ اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان گئی تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عقیدہ توحید کو جان کر مسلمان ہوجائے گی۔ جہاں تک تخت کے لانے والے اور اس کے اس کارنامے کا معاملہ ہے اس کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ امام رازی (رح) کا اصرار ہے کہ اس شخص سے مراد حضرت سلیمان (علیہ السلام) خود ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے زبور کا علم اور یہ معجزہ عطا فرمایا تھا۔ دوسرے مفسرین اس بات کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کام خود نہیں کیا بلکہ ان کے کسی ساتھی نے کیا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسا علم عطا فرمایا تھا۔ جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کا علم تھا جس کے واسطے سے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہر صورت اسے پورا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل کرتا ہے تو اس کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے یا باغی اور ناشکرا بنتا ہے۔ جو اپنے رب کی ناشکری کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کی ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تفسیر بالقرآن: شکر کے فائدے اور کفر کے نقصانات : 1۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ (ابراہیم :7) 2۔ اللہ شکر گزار بندوں کا قدرد ان ہے (النساء :147) 3۔ اگر تم اس کا شکریہ ادا کرو تو وہ تم پر خوش ہوگا۔ (الزمر :7) 4۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔ (آل عمران :144) 5۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل :40) 6۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو تو اللہ بے پروا اور تعریف والا ہے۔ (ابراہیم :8)