فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
پس جب قاصد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ (١) مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو (٢)۔
فہم القرآن: (آیت 36سے37) ربط کلام : تحائف پہنچنے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ردِّ عمل۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ بلقیس کے تحائف پہنچے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے نمائندوں کو فرمایا کہ جن تحائف کے ساتھ مجھے خوش کرنا چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے زیادہ اور بہترین مال عطا فرمارکھا ہے۔ اس لیے تم اپنے تحائف کے ساتھ خوش رہو اور واپس لے جاؤ۔ ہم اپنے لشکروں کے ساتھ تم پر ضرور پیش قدمی کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تم طاقت نہیں رکھتے اور ہم مقابلہ میں آنے والوں کو زیر اور ذلیل کریں گے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مشرک ملکہ کے تحائف کو قبول کرنے سے اس لیے انکار کیا کہ اس طرح ان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز کمزور ہوجاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ مراسلہ بھیجنے والا حکمران کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کشورکشائی اور دنیا کے مال کا حریص ہے وہ اس کمزوری یا مرّوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مشرکانہ عقیدہ پر قائم رہتے۔ جو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے گوارا نہ تھا۔ کیونکہ شرک ایسا جرم اور گناہ ہے کہ جسے مواحد حکمران برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے کچھ عرصہ بعد جب طائف کے سردار مسلمان ہونے کے لیے آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دو شرائط پیش کیں ایک تو ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ جس کے جواب میں آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ دین ہی کیا جس میں نماز نہیں۔ طائف کے لوگ مان گئے ہم نماز پڑھا کریں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے طائف کے بت کو نہ چھیڑا جائے۔ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ ہم اسے فی الفور مسمار کریں گے۔ بالآخر انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ آپ اپنے آدمیوں کے ذریعے یہ کارروائی کریں۔ نبی (ﷺ) نے یہ شرط تسلیم فرمائی اور چند صحابہ کو طائف بھیجا جنہوں نے بت خانے کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا۔ تفصیل کے لیے سیرت ابن ہشام کا مطالعہ فرمائیں۔ عام حالات میں مشرک کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے : (قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) ہَاجَرَ إِبْرَاہِیمُ بِسَارَۃَ فَدَخَلَ قَرْیَۃً فیہَا مَلِکٌ أَوْ جَبَّارٌ فَقَالَ أَعْطُوہَا آجَرَ وَأُہْدِیَتْ للنَّبِیِّ (ﷺ) شَاۃٌ فیہَا سُموَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ أَہْدَی مَلِکُ أَیْلَۃَ للنَّبِیِّ بغْلَۃً بَیْضَاءَ، وَکَسَاہُ بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ بِبَحْرِہِمْ) [ رواہ البخاری : باب قَبُولِ الْہَدِیَّۃِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے سائرہ کے ساتھ ہجرت کی تو آپ کا گزر ایسی بستی سے ہوا جہاں جابر حکمران رہتا تھا اس نے کہا ابراہیم کو ہاجرہ تحفہ میں دو۔ نبی (ﷺ) کو زہر ملی ہوئی بکری تحفے میں دی گئی امام بخاری کے استاد ابو حمیدبیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) کو ایلہ کے بادشاہ نے سفید خچر، چادر تحفے میں دیے اور ان کے لیے بحری سفر کا پروانہ تحریر کروایا۔“ (عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّہِ الْخُرَاسَانِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) تَصَافَحُوا یَذْہَبِ الْغِلُّ وَتَہَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْہَبِ الشَّحْنَاءُ) [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ] ” عطاء بن ابی مسلم عبداللہ خراسانی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔“