وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ
تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا، اے موسٰی! خوف نہ کھا (٢) میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔
فہم القرآن: (آیت 10سے12) ربط کلام : پہلی وحی کے موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے کے ساتھ دو عظیم معجزات سے سرفراز کیا گیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول منتخب فرمالیا ہے تو انھیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! اپنا عصا زمین پر پھینکئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو نہی عصا زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر اپنا پھن پھلاتے ہوئے لہرانے لگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کر اس سے دور بھاگے اور انھوں نے پلٹ کر دیکھنے کی ہمت نہ کی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ڈریے نہیں کیونکہ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے۔ میری بارگاہ میں پیشی سے وہ لوگ ڈرا کرتے ہیں جنھوں نے ظلم کیا ہوتا ہے۔ ہاں جو برائی کو بھلائی سے بدلتے ہیں انہیں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پلٹ کر اژدھا کو پکڑا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالووہ بغیر کسی بیماری کے چمکتا ہوا نکلے گا۔ یہ نونشانیوں میں سے دو ہیں جن کے ساتھ تجھے فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔ ہاں یہ بات ذہن میں رکھنا کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک اللہ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو واقعی اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا کو پکڑ اتو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ پھر اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاہِدُ، وَعِکْرَمَۃُ وَالشَّعْبِیُّ، وَقَتَادَۃُ ہِیَ یَدُہٗ، وَعَصَاہٗ، وَالسَّنِیْنُ، وَنَقْصُ الثَّمَرَاتِ، وَالطَّوْفَانُ، وَالْجَرَادُ، وَالقُمَّلُ، وَالضَّفَادِعُ، وَالدَّمُ) [ابن کثیر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی تو نشانیاں یہ تھیں۔ 1۔ عصا، 2۔ یدِبیضاء، 3۔ قحط سالی، 4۔ پھلوں کی کمی، 5۔ طوفان، 6۔ ٹڈی دل، 7۔ جوؤں کا عذاب، کھٹمل، 8۔ مینڈک 9۔ اور خون کا عذاب۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔