سورة النمل - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ النمل۔ سورۃ نمبر ٢٧۔ تعداد آیات ٩٣)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ النّمل کا تعارف : ربط سورۃ: الشعراء کے آخر میں ایمانداروں کی صفت بیان ہوئی کہ وہ ” اللہ“ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ النّمل کی ابتدا میں بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے قرآن مجید ہدایت اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ یہ سورۃ 7 رکوع اور 93 آیات پر مشتمل ہے۔ النّمل کا لفظ اس سورۃ کی اٹھارویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ کی ابتدا میں قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن اپنے مدعا اور دلائل کے حوالے سے واضح اور مدلّل کتاب ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان لاتے ہیں، نماز قائم، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور آخرت پر یقین کامل رکھتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو آخرت کی جواب دہی پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے لیے ان کے برے اعمال خوبصورت بنا دئیے گئے ہیں اور وہ اپنی روش میں اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں آخرت میں بدترین عذاب ہوگا اور یہی لوگ آخرت میں دائمی نقصان پانے والے ہیں۔ بنیادی ہدایات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ابتدائی واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ کہ ” اللہ“ نے انہیں سفر میں کس طرح نبوت اور عظیم معجزے عطا فرمائے، اس کے بعد حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اقتدار اور اختیارات کا ذکر فرماکر ملکہ بلقیس کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سفارت اور ملاقات کے مثبت نتائج کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قدم، قدم پر ذہانت نمایاں ہے اور ملکہ بلقیس ہر قدم پر اپنی بے علمی کا اعتراف کرتے ہوئے بالآخر مسلمان ہوجاتی ہے۔ پھر صالح (علیہ السلام) کی قوم اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام پر تبصرہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام سے اہل مکہ کو متنبہ کیا ہے۔ کہ تم جو کچھ بھی ہولیکن فرعون اور اس کے ساتھیوں سے تمہاری طاقت اور بغاوت زیادہ نہیں۔ جب فرعون اور اس کے لشکر حق کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکے تو تم کس باغ کی مولی ہو لہٰذا سمجھ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی آل فرعون جیسا ہوگا۔ حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کا واقعہ ذکر کر کے یہ سمجھایا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے اسے کس طرح دوسرے کو توحید کی دعوت دینا ہے اور جس تک توحید کی دعوت پہنچے اسے تسلیم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے النّمل کے آخر میں سوالات کی صورت میں توحید سمجھائی گئی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت دئیے گئے ہیں پھر نبی (ﷺ) کو حکم دیا کہ اہل مکہ پر واضح کردیں جس رب نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ میں اسی رب کی توحید کی دعوت دیتا اور اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کو قبول کیا اس کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا جو اپنے انکار پر قائم رہا میرا کام تو اسے سمجھانا اور برے انجام سے ڈرانا ہے۔ سورۃ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ آپ (ﷺ) ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہیں، وہ عنقریب اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائے گا۔ جنہیں دیکھ کر منکرین کو یقین ہوجائے گا، کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے یاد رکھیں کہ آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔