فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں (سوار کراکر) نجات دے دی۔
فہم القرآن : (آیت 119 سے 122) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے فیصلہ کن عذاب کی بدعا کی اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کے مومن ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو واضح طور پر بتلادیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیری قوم سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا لاچکا۔ اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا لہٰذا ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی تیار کیجیے اور اب میرے حضور ظالموں کے حق میں فریاد نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ہود : 36۔37) ” نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے قریب سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے نوح جواب دیتے کہ جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ایک وقت ہم بھی تم سے تمسخر کرینگے۔ اور تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کردے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا یعنی دو دو جانور ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے کہ ہلاک ہوجائے گا اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔ ( نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر سوارہو جاؤ۔ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔ کشتی ان کو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو کہا جو کشتی سے الگ تھا۔ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔ اس نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے اتنے میں دونوں کے درمیان لہر آ حائل ہوئی اور وہ ڈوب گیا۔ (ھود : 38تا43) ”(نوح نے) اپنے پروردگار سے دعا کی کہ بارِ الٰہا میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں تو میری مدد فرما۔ تو ہم نے ان پر موسلاد ھاربارش کے آسمان سے دروازے کھول دئیے۔ اور زمین سے چشمے جاری کر دئیے۔ سارا پانی مل گیا ایسے کام کے لیے جس کا فیصلہ ہوچکا تھا، اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا۔ وہ ہماری نگرانی میں چلتی تھی یہ سب کچھ اس شخص کے انتقام کے لیے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے۔ اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔ سو دیکھ لو کہ میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا؟۔ (القمر : 10تا16) اس سارے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” آنے والے لوگوں کے لیے اس میں ایک سبق ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ کا رب پوری طرح غالب اور نہایت ہی مہربان ہے۔“ اس میں یہ بات بتلا دی گئی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال انفرادی اور اجتماعی طور پر دن رات لوگوں کو سمجھاتے رہے لیکن قوم میں چند آدمیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ اے میرے پیغمبر (ﷺ) آپ اور آپ کے ساتھیوں کو دعوت دیتے ہوئے ابھی چند سال گزرے ہیں آپ کو دل چھوٹا کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے دشمنوں کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری طرح غالب اور قادر ہے کہ جب چاہے وہ ان کو کسی اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کر دے۔ لیکن وہ اپنے بندوں کو بار بار موقعہ دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں کیونکہ وہ نہایت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : 1۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان :37) 2۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود :43) 3۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح :26) 4۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود :43)