فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ
اب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی لاٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا۔
فہم القرآن: ( آیت 45 سے 48) ربط کلام : جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا میدان میں پھینکنا۔ جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنا شروع کیا چند لمحوں میں عصا نے میدان اس طرح صاف کردیا کہ کوئی رسی اور لاٹھی باقی نہ تھی۔ اژدھا اس قدر، پھرتیلا اور بڑا تھا کہ جدھر منہ کرتا یوں دکھائی دیتا تھا جیسے رسیاں اور لاٹھیاں خود بخود اس کے منہ میں پڑرہی ہیں۔ جادوگروں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا تو یہ کہتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن مجید نے جادوگروں کے سجدہ میں گرنے کے بارے میں فرمایا کہ انہیں گرادیا گیا یعنی سجدہ ریز ہونے اور ایمان لانے کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا رہے ہیں۔ گویا کہ جادوگروں نے اپنی شکست کا اعتراف اور اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بیک وقت تین کام کیے۔ 1۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا۔ 2۔ انھوں نے فرعون کی بجائے رب العالمین کہہ کر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ 3۔ مزید وضاحت کے لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب کا نام لیا۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی قسم کا شک نہ رہے اور فرعون عوام کو کسی قسم کا مغالطہ نہ دے سکے۔