إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ
اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں (١)
فہم القرآن: (آیت 4 سے 5) ربط کلام : کتاب مبین کی واضح آیات اور ٹھوس دلائل کے باوجود لوگ ایمان نہیں لاتے۔ رسول محترم (ﷺ) کی بے مثال جدوجہد اور قرآن مجید کے ٹھوس اور بیّن دلائل کے باوجود۔ کفار آپ (ﷺ) سے ایک سے ایک بڑھ کر معجزہ لانے کا مطالبہ کرتے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ایسا معجزہ نازل کریں جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں۔ اور یہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس نے لوگوں کے سامنے کتاب مبین رکھ دی ہے۔ جس کی تلاوت کرنے سے حق اور باطل واضح ہوجاتا ہے۔ اب یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رغبت سے حق قبول کرتے ہیں یا نخوت سے اسے مسترد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی منکرین حق کے سامنے کوئی نئی دلیل پیش کی جاتی ہے تو وہ اسے استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر ان کا یہی وطیرہ رہا تو وقت دور نہیں جب ان پر ایسے حالات وارد ہوں گے۔ جن سے حق کی تکذیب اور اسے استہزاء کا نشانہ بنانے والوں کو نیست ونابود کردیا جاتا ہے۔ مسائل: 1۔ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ حق بات سے اعراض کرتی رہی ہے۔ 2۔ انبیاء (علیہ السلام) کو مذاق کرنے والوں کا ہمیشہ سے برا انجام ہوا ہے۔