سورة الفرقان - آیت 74

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : الرّحمن کے بندے اس حد تک صاحب بصیرت اور ذمہ دار ہوتے ہیں کہ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے اہل وعیال اور پورے معاشرے کی اصلاح کے لیے دعا گو اور کوشاں رہتے ہیں۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف صاحب بصیرت اور ذمہ دار ہوتے ہیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لیے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد کرتا رہے کیونکہ یہی اصلاح کا مؤثر ذریعہ اور امت کا اجتماعی فرض ہے۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنے رب کی بارگاہ میں رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں دنیا اور آخرت کے حوالے سے ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما اور ہمیں اخلاق اور کردار کے اعتبار سے اس قابل بنا کہ ہم متقی لوگوں کی قیادت کرسکیں۔ بیوی یا اولاد نیک نہ ہو تو آدمی کا گھر جہنم کا گڑھا بن جاتا ہے۔ اہل خانہ نیک اور تابع دار ہوں تو بڑی سے بڑی مصیبت اور غربت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے نیک لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ایسی بیویاں اور ایسی اولاد عطا فرما جنہیں دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دل مسرور ہوں اور ہمیں متقی حضرات کی امامت کے منصب پر فائز فرما۔ یعنی ہم تقویٰ اور اطاعت میں سب سے بڑھ جائیں بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں۔ محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اس بات کا ذکر یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال ودولت اور شوکت وحشمت میں نہیں بلکہ نیکی وپرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمراں بنا دے۔“ اس سخن فہمی کی داد ” امیدواروں“ کے سوا اور کون دے سکتا ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کے بارے میں دعا : ﴿رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ﴾ [ ابراہیم :37] ” اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو اس وادی کو بسایا ہے، جو کسی کھیتی باڑی کے لائق نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب ! تاکہ نماز قائم کریں۔ بس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں۔“ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اپنی اولاد کے بارے میں فکر مندی : ” ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔’ کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے۔ جب اس نے اپنی اولاد کو فرمایا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ سب نے جواب دیا کہ تیرے معبود کی اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔“ [ البقرۃ: 132، 133] حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں : ” یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا سچی بات یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔# بیٹا زمین و آسمانوں اور صحراء وبیابان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔$بیٹا نماز قائم کرو۔ نیکی کی تبلیغ کرو اور لوگوں کو برائیوں سے روکتے رہو۔اس کام جو پریشانی آئے اسے برداشت کرو یہ عظیم کام ہیں۔ بیٹا لوگوں سے نفرت اور تکبر نہ کرو اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔* بیٹا چال اور گفتار میں میانہ روی اختیار کرو۔ آوازوں میں مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔“ [ لقمٰن : 13تا18] سرور دو عالم (ﷺ) کی اپنی بیٹی اور خاندان کو نصیحت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ () حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں مگر تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا : ﴿وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِین﴾ [ النمل :19] ” اے میرے رب مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔“ نیک بیوی کی حیثیت : ﴿ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ () اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاع الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ﴾ [ رواہ مسلم : باب خَیْرُ مَتَاع الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ] حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا دنیاساری کی ساری زیست کا سامان ہے۔ لیکن دنیا کی بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر صرف تین ذرائع سے اسے اجر ملتا رہتا ہے۔ (1) صدقہ جاریہ۔ (2) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ [ رواہ مسلم : بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ] مسائل: 1۔ الرّحمن کے بندے اپنے رب سے اپنی بیویوں اور اولاد کی اصلاح کی دعا کرتے ہیں۔ 2۔ الرّحمن کے بندے اپنے رب سے اپنی بیویوں اور اولاد کا سکون مانگتے ہیں۔ 3۔ الرّحمن کے بندے متقین کے امام بنتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اولاد کے بارے میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعائیں : 1۔ اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا۔ (ابراہیم :40) 2۔ حضرت زکریانے اپنے پروردگار سے عرض کی کہ الٰہی مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ (آل عمران :38) 3۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ابراہیم نے کہا میری اولاد کو بھی بنائیں۔ (البقرۃ:124) 4۔ اے ہمارے پروردگار! ہماری اولاد میں ایک جماعت اپنی تابعدار بنا۔ (البقرۃ:128)