وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا
اور جب ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے (١)
فہم القرآن: ربط کلام : عباد الرّحمن صرف عقیدہ، اخلاق، معاملات اور کردار کے اعتبار سے نیک نہیں ہوتے بلکہ وہ فہم و فراست میں بھی لوگوں سے آگے ہوتے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول یوں بیان فرمایا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَرَأَ النَّبِیُّ (ﷺ) النَّجْمَ بِمَکَّۃَ فَسَجَدَ فیہَا، وَسَجَدَ مَنْ مَعَہُ، غَیْرَ شَیْخٍ أَخَذَ کَفًّا مِنْ حَصًی أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَہُ إِلَی جَبْہَتِہِ وَقَالَ یَکْفِینِی ہَذَا فَرَأَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ قُتِلَ کَافِرًا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی سُجُودِ الْقُرْآنِ وَسُنَّتِہَا] حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے سورۃ نجم کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے وہ بھی سجدہ ریز ہوگئے قریش کے ایک بوڑھے آدمی کے اس نے زمین سے کنکریاں یا مٹی اٹھا کر اپنے ماتھے پرلگاتے ہوئے کہا کہ بس میرا یہی سجدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔ امام بخاری نے اس کا نام امیہ بن خلف لکھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور بات منوانے کے لیے جبر کا وطیرہ اختیار نہیں کیا۔ جبر اختیار کرنے کی بجائے دلائل کے ساتھ انسان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انسان کے سامنے نہ صرف اپنی ذات اور احکام کے بارے میں دلائل دیے ہیں بلکہ بار بار دلائل پر فکر و تدبر کرنے کی دعوت دی ہے اور ان بندوں کی تعریف کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور قدرتوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اسی بناء پر عباد الرّحمن کی یہ خوبی بیان کی جارہی ہے کہ جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور گونگے بن کر نہیں گرتے۔ بلکہ اپنے رب کے احکام پوری توجہ سے سنتے ہیں اور ” عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرۃ“ ان پر عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے تدبر کے بغیر انسان میں دین کی فہم اور اس پر عمل کرنے کی تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے احکام اور قدرتوں پر غور کرنے سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔