وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
اور جو خرچ کرتے وقت بھی اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں (١)
فہم القرآن: ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ” عباد الرحمن“ کے اوصاف۔ اس سے پہلے ” عباد الرحمن“ کی چال ڈھال، گفتار اور رات کے وقت ان کی اپنے رب کے حضور آہ و زاریوں کا تذکرہ ہوا۔ اب مالی معاملات میں ان کے کردار کا ذکر ہوتا ہے۔ ” الرحمن“ کے بندے جس طرح گفتار اور رفتار میں اعلیٰ معیار رکھتے ہیں اسی طرح ہی وہ خرچ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ خرچ کرتے وقت نہ وہ بے جا خرچ کرتے ہیں اور نہ وہ بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ معیشت کو متوازن رکھنے کا بنیادی اصول ہے اسی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ (اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ تو سائل کو نرمی کے ساتھ جواب دیں۔) ﴿وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا﴾ [ بنی اسرائیل :28] اور اگر آپ اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں جس کی آپ امید رکھتے ہیں تو سائل سے بے توجہگی کرتے وقت ان سے نرم بات کریں۔“ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا“ [ رواہ أحمد : مسند عبداللہ بن مسعود ] (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لاَ تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمْرِہِ فیمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہِ فیمَا أَبْلاَہُ وَمَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَ أَنْفَقَہُ وَمَاذَا عَمِلَ فیمَا عَلِمَ) [ رواہ الترمذی : باب فی القیامۃ] ” حضرت ابن مسعود (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا آد م کا بیٹا اس وقت تک قدم نہیں اٹھا پائیگا جب تلک پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے۔ اس کی عمر کے متعلق پوچھا جائیگا کہ کیسے گذاری، بالخصوص جوانی کے متعلق سوال ہوگا کہ شباب کیسے گزارا۔ مال کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ علم کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس پر کس قدر عمل کیا۔“ پورا مال صدقہ کرنا ٹھیک نہیں : ” حضرت سعد (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول کریم (ﷺ) سے عرض کی کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اجازت نہ دی۔ انہوں نے نصف کی اجازت مانگی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی۔ آپ نے یہ فرماکر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، میراث البنات] کنجوسی کی مذمت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَیْدِیْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) [ رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ کس جاتی ہے۔“ مسائل: 1۔ ” الرّحمن“ کے بندے فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرتے ہیں۔ 2۔ الرّحمن کے بندے خرچ اخراجات میں اعتدال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: صدقہ کرنے اور بخیلی سے بچنے کا حکم : 1۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 2۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دوگنا تین گنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 3۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 4۔ رحمن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی اختیار کرتے ہیں۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان :67)