لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے، اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
فہم القرآن : ربط کلام : ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل کام نہیں یہ عین انسان کی فطرت اور اس کی وسعت ہمت کے مطابق ہے ان پر اپنی ہمت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بخشش، رحمت اور مدد طلب کرنی چاہیے یہی اسلام کے غلبہ اور کفار پر فتح پانے کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورۃ کے اختتام میں از راہ کرم اپنے بندوں کے لیے یہ وضاحت فرماتا ہے کہ تمہارے رب نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں۔ وہ ایسے نہیں کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہو۔ لہٰذا جو ان کے مطابق عمل کرے گا اس کا اسی کو فائدہ پہنچے گا اور جس نے ان احکامات کی مخالفت کی وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ مومن تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے باوجود اس کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے خالق ومالک ! اگر ہم سے بھول یا دانستہ خطا ہوجائے تو ہمیں اپنی گرفت سے بچائے رکھنا۔ اے ہمارے پالنہار ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس طرح پہلے لوگوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ڈالا گیا تھا۔ مومن تو اپنے رب کے حضور دست بستہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب ! ہم سے غلطی ہوجائے تو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو۔ جس کی ہم میں ہمت نہ ہو۔ الٰہی ! ہم سے در گزر کر، ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور ہم پر رحم کر۔ تو ہی تو ہمارا مولا ہے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت وحمایت فرما۔ آمین۔ (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلِ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ عَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَدْعُوْ بِہِ اللّٰہَ قَالَتْ کَانَ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَالَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء، باب التعوّذ من شر ماعمل ومن شر ما لم یعمل] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے نبی کریم (ﷺ) کی دعاؤں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آپ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں نے جو کام کیے اور جو نہیں کیے ان کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ کَانَ عَآمَّۃُ دُعَاءِ نَبِیِّ اللّٰہِ (ﷺ )اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاأَخْطَأْتُ وَمَا تَعَمَّدْتُّ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا جَھِلْتُ وَمَا تَعَمَّدْتُّ ) [ مسند احمد : کتاب اول مسند البصریین، باب حدیث عمران بن حصین ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی یہ دعا ہوا کرتی تھی کہ اے اللہ! میری خطاؤں کو جو میں نے جان بوجھ کر‘ پوشیدہ‘ ظاہری‘ بے علمی سے اور عمداً کی ہیں سب کو معاف فرما۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ 2۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزاء و سزا ملے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی خطاؤں اور بھول کی معافی مانگنا اور اس کی سختی سے پناہ طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : دین میں آسانیاں : 1۔ مریض ومسافر کو روزوں میں تاخیر کرنے کی اجازت۔ (البقرۃ:185) 2۔ نماز میں قصر۔ (النساء :101) 3۔ رمضان کی راتوں میں مباشرت کی اجازت۔ (البقرۃ:187) 4۔ حج صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ (آل عمران :97) 5۔ ہمت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تقو ٰی اختیار کرنے کا حکم۔ (التغابن :16) تفصیل کے لیے میری کتاب ” دین تو آسان ہے“ کا مطالعہ فرمائیں