وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انھیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا۔
فہم القرآن: (آیت 55 سے 56) ربط کلام : انسان کو اس کی تخلیق یاد کروا کے بتلایا گیا ہے کہ تیرا خالق ” اللہ“ ہے لہٰذا تجھے صرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیات سے پہلی آیت میں اپنے رب ہونے کے 18دلائل دیے ہیں۔ ان دلائل میں اس کے خالق، رازق اور مالک ہونے کے اس قدر ٹھوس ثبوت ہیں جن میں سے کوئی ایک صفت اور ثبوت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ذات میں نہیں پایا جاتا۔ اس حقیقت کے ناقابل تردید دلائل دینے کے بعد انسان کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ کچھ لوگ ایسے زبردست مالک، خالق اور رازق کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتاً کافر ہیں اور کافر اپنے رب کا مخالف ہے۔ خود ساختہ حاجت رواؤں کی حمایت میں جھگڑا کرتا ہے اور رب کی توحید کے خلاف دلائل دیتا ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے کی بجائے آپ انھیں سمجھاتے رہیں کیونکہ ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے۔ یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے۔ یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد بنا رکھی ہے۔ اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں پیدا کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ﴾] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا عملاً کافر ہوتا ہے۔ 2۔ کافر ان کی پوجا کرتا ہے جو اسے نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ 3۔ مشرک درحقیقت اپنے رب کے مدمقابل کھڑا ہوتا ہے۔