وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا (١) بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : دو سمندروں کے مختلف پانیوں کے ذکر کے بعد اس پانی کا تذکرہ جس سے اشرف المخلوق انسان پیدا کیا گیا ہے۔ دو سمندروں کے مختلف پانی کے ذکر کے بعد جس پانی کے قطرہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ انسان بھی بنیادی طور پر پانی کے دو قسم کے قطروں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک قطرہ مرد کے صلب سے اور دوسرا قطرہ عورت کی چھاتی سے نکلتا ہے دونوں قطرے الگ الگ اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جنھیں میڈیکل سائنس میں جرثومے کہا جاتا ہے۔ جرثوموں کا دست قدرت کے اشارے سے رحم مادر میں ملاپ ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے ایک بچہ کی صورت اختیار کرتا ہے پھر زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر باپ کا درجہ حاصل کرتا ہے اور اس کے بعد بنیادی طور پر اس کی نسل دو خاندانوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک طرف اپنی اولاد کا باپ اور پوتے پوتیوں کا دادا بنتا ہے اور دوسری طرف سسر کے رشتہ میں منسلک ہو کر نواسوں اور نوسیوں کا نانا بن جاتا ہے۔ اسی طرح یہی آدمی ایک کا بیٹا ہوتا ہے اور دوسرے کا داماد بنتا گویا پانی کی بوند سے اکیلا پیدا ہونے والا انسان کئی رشتوں سے منسلک ہوجاتا ہے۔ کئی انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان میں سے کسی ایک یا دونوں رشتہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اس بات پر قدرت رکھنے والا ہے یعنی وہ چاہے تو کسی کا نسب بڑھائے اور اسے باپ دادا اور سسرال کے رشتوں کے ساتھ منسلک کرے اور نہ چاہے تو اس کا نسب اسی پر ختم ہوجائے۔ ﴿فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ۔ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ۔ إِنَّہُ عَلَی رَجْعِہِ لَقَادِرٌ﴾ [ الطارق : 5۔8] ” انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان میں سے نکلتا ہے۔ بے شک اللہ اسے دوبارہ لوٹانے پر قادر ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ کِتَابُہٗ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن: انسان کی پیدائش اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل : 1۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 2۔ حضرت حوا کو آدم ( علیہ السلام) سے پیدا فرمایا۔ (النساء :1) 3۔ اے انسان کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف :37) 4۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 5۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون :12) 6۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 7۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج :5) 8۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 9۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم :20) 10۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر :11)