أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ (١)
فہم القرآن: ربط کلام : دین حق کی مخالفت اور انسان کی گمراہی کا بنیادی سبب نفس پرستی ہے۔ اس لیے نفس پر ستی کی نفی کی گئی ہے۔ انسان جب بھی حق بات کی مخالفت کرتا ہے یا کسی گناہ میں ملّوث ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی نفسانی خواہش کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس حد تک اپنے نفس کے بندے بن چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ہر کام کے پیچھے اپنی منشاء اور مفاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کے بارے میں آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا ہے کیا آپ نے اس شخص کے کردار پر غور نہیں کیا جس نے اپنی خواہش کو خدا کا درجہ دے دیا ہے ؟ ایسے شخص کو راہ راست پرلانا کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا لہٰذا آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ایسے شخص کے فکر وعمل پر وقت صرف کرنے کی بجائے اپنا کام کیے جائیں کیونکہ آپ کسی کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گئے۔ نفس کے بندوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والا انھیں انسان سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ حیوان سے بدتر ہوتے ہیں۔ بے شک وہ انسان کی طرح سنتے اور عقل رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے نفس کے غلام ہونے کی وجہ سے چوپاؤں سے بدتر ہوچکے ہیں بلکہ بے راہ روی کے اعتبار سے ڈنگروں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ چوپائے میں اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار اور اس کی زبان نہ سمجھنے کے باوجود اس کی آواز کے انداز اور لب ولہجہ کا اندازہ لگا کر مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ کتے کو دیکھیں جانوروں میں حقیر اور پلید ہونے کے باوجود کس طرح اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے اور عقل و فکر رکھنے کے باوجود خالق حقیقی کی تابعداری اور بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں کسی جانور اور چوپائے کی ایسی مثال موجود نہیں کہ جو اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کرتا ہو۔ لیکن انسان اس قدر جاہل اور ظالم ہے کہ یہ ناصرف اپنے مالک حقیقی کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جانوروں سے بدتر نہ کہا جائے تو اور انھیں کس نام سے پکارا جائے ؟ نفس کی پیروی کا نقصان : (عَنْ شَدَّادٌ فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ) [ رواہ احمد : مسند شداد ] حضرت شداد (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا جس نے دکھلاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کاروزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کا صدقہ دیا اس نے شرک کیا۔ (إِنَّ اللَّہَ لاَ یَنْظُرُ إِلَی أَجْسَادِکُمْ وَلاَ إِلَی صُوَرِکُمْ وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوبِکُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِہِ إِلَی صَدْرِہِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ وَخَذْلِہِ وَاحْتِقَارِہِ وَدَمِہِ وَعِرْضِہِ وَمَالِہِ] ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکل وصورت کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے اور آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔“ مسائل: 1۔ دین کے مقابلے میں اپنے نفس کی بات ماننا، نفس کو خدا بنانے کے مترادف ہے۔ 2۔ جو لوگ اپنے نفس کے پجاری بن جاتے ہیں وہ چوپاؤں سے بدتر ہوتے ہیں۔ 3۔ نفس کا پجاری انسان پر لے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: چوپاؤں سے بدتر انسان : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کردی انھیں بہرے اور اندھے کردیا ہے۔ (محمد :23) 2۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں وہ رجوع نہیں کرتے۔ (البقرۃ:18) 3۔ ہماری آیات کا انکار کرنے والے بہرے اور گونگے ہیں۔ (الانعام :39) 4۔ بہروں کو آپ نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ بے عقل ہیں۔ (یونس :42) 5۔ آپ مردوں اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے۔ (النمل :80) 6۔ کفار چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی بدترہیں۔ (الاعراف :179) 7۔ عقل سے کام نہ لینے کا انجام۔ ( الملک :10) 8۔ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان دل، کان اور توجہ سے کام لے۔ ( ق :37)