إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
(وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی (١) اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انھیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا ؟ (٢)
فہم القرآن: (آیت 42 سے 43) ربط کلام : کفار کی مخالفت اور استہزاء کے باوجود رسول معظم (ﷺ) کی جدوجہد کے بڑھتے ہوئے اثرات۔ دور نبوت کے ابتدائی سالوں میں کفار کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہم توحید و رسالت کی دعوت کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی جس کے لیے انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہاں کفار کی انہی کوششوں کا ذکر ہے جس سے حق وباطل کے درمیان ہونے والی کشمکش کا پتہ چلتا ہے۔ قرآن مجید نے آپ (ﷺ) کو آگاہ فرمایا کہ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ نور ہدایت دنیا پر پھیل کر رہے گا۔ (الصف : 8۔9) اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اور اس کا رسول ہر صورت غالب آئیں گے کیونکہ اللہ بڑا طاقت ور اور غالب آنے والا ہے۔ (المجادلہ :21) اس لیے کفار کو یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی مذموم کوششوں سے باز آجائیں کیونکہ وہ کسی صورت بھی اللہ کے دین کے پھیلاؤ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اگر پھر بھی باز آنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے سے گمراہ ہوچکا اور کس کا انجام بدترین ہوگا ؟ بالخصوص جب جہنم کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تو سوائے حسرت کے ان کے پلے کچھ نہیں ہوگا۔ مذکورہ آیت کے الفاظ سے نبی اکرم (ﷺ) کی بے مثال جدوجہد اور کفار کی طرف سے شدید ردّ عمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب فرمایا اور کافر ناکام ہوئے یہ آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا ہونگے۔