وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا
اور ہم نے ان کے سامنے مثالیں بیان کیں (١) پھر ہر ایک کو بالکل ہی تباہ و برباد کردیا (٢)۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد قوم عاد، ثمود اور کنویں والوں کا انجام۔ یہاں چند الفاظ میں قوم عاد، ثمود، کنویں والوں اور ان کے بعد نامعلوم اقوام کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن کے بیان کا مقصد ان کے بعد آنے والی اقوام بالخصوص امت مسلمہ اور دیگر لوگوں کے لیے عبرت کے دلائل مہیا کرنا ہے تاکہ لوگ اپنے آپ کو ان جرائم سے بچانے کی کوشش کریں جن جرائم کی بنیاد پر ان قوموں کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کی تاریخ رہتی دنیا کے لیے حسرت کا پیغام بنا دی گئی۔ یہاں قرآن مجید نے ان قوموں کی تاریخ کو چند الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ اسی اختصار کے پیش نظر اِ ن اقوام کی تباہی کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے تاکہ ان قوموں کے بیان کا مقصد ہمارے سامنے رہے۔ قوم عادجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی سرمین پر ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے جس وجہ سے انہیں احقاف والے کہا گیا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف :69) 2۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر 6تا8) 3۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء :133) 4۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء 129تا133) [ تفصیل جاننے کے لیے فہم القرآن، جلد2: سورۃ الاعراف، آیت 65تا 73کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں] قوم ثمود کا کردار اور انجام : اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہو اور حضرت صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : 142تا153) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ ظاہر کردیا گیا اور تم نے اس کا انکار کیا تو پھر تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم ثمود اپنے مطالبہ پر مصر رہی۔ چنانچہ انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا مگر انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جسکے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن، جلد2: سورۃ الاعراف، آیت 73تا 84کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) اصحاب الرّس کون لوگ تھے ان کے متعلق مفسرین نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں لیکن کسی نے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا۔ ابن جریر (رض) نے کہا ہے کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا تذکرہ سورۃ البروج میں ہوا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ الرّس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نبی کو قتل کرکے ویران کنویں میں پھینک دیا تھا۔ ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ ہلاک کر دئیے گئے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے عاد، ثمود اور کنویں والوں کو ان کے جرائم کی وجہ سے تباہ و برباد کیا۔ 2۔ تباہ ہونے والی قوموں کی تاریخ آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ تفسیر بالقرآن: عاد، ثمود کی تباہی کا ایک منظر : 1۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ:6) 2۔ قوم عاد و ثمود کے برے اعمال کو شیطان نے انکے لیے فیشن بنا دیاتھا۔ (العنکبوت :38) 3۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 4۔ قوم عاد کو تند وتیز آندھی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ :6) 5۔ قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف :22) 6۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ:5) 7۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حم السجدۃ:17)