وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا (١) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے (٢)۔
فہم القرآن: (آیت 32 سے 33) ربط کلام : مجرمانہ کردار رکھنے والوں کا رسالت مآب (ﷺ) پر ایک اور اعتراض۔ کفار کو رسالت مآب (ﷺ) پر یہ بھی اعتراض تھا کہ آپ پر پورے کا پورا قرآن ایک ہی بار کیوں نہیں نازل ہوا ؟ جس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کو اس لیے تھوڑا تھوڑا نازل کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ آپ (ﷺ) کا دل مضبوط ہو اور قرآن اچھی طرح آپ کے ذہن پر نقش ہوجائے، اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔ کفار آپ پر جو بھی اعتراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اتنا جامع اور مدّلل جواب دیتے کہ کفار لاجواب ہو کر رہ جاتے۔ لیکن اس کے باوجود کفار اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں تھے اس وجہ سے وہ وقفے وقفے کے بعد مختلف الفاظ اور انداز میں سوال دہراتے رہتے تھے۔ قرآن مجید کفار کے سوالات کا کبھی مفصل جواب دیتا ہے اور کبھی اجمال کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کا تھوڑا، تھوڑا اور وقفے وقفے سے نازل ہونے کا تعلق ہے اس طرح قرآن نازل ہونے سے نبی (ﷺ) کے دل کو ڈھارس ملتی اور مسلمانوں کو عمل کرنے میں سہولت حاصل ہوتی تھی۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ غَدَوْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّہِ فَقَالَ رَجُلٌ قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَۃَ فَقَالَ ہَذًّا کَہَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّا قَدْ سَمِعْنَا الْقِرَاءَ ۃَ وَإِنِّی لأَحْفَظُ الْقُرَنَاءَ الَّتِی کَانَ یَقْرَأُ بِہِنَّ النَّبِیُّ (ﷺ) ثَمَانِیَ عَشْرَۃَ سُورَۃً مِنَ الْمُفَصَّلِ وَسُورَتَیْنِ مِنْ الِ حم) [ رواہ البخاری : باب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ ] ” حضرت ابو وائل حضرت عبداللہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں چاشت کے وقت حاضر ہوئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے پوری کی پوری مفصل سورتیں پوری پڑھ ڈالیں۔ اس پر ابن مسعود (رض) نے فرمایا : جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں ویسے پڑھ لی ہوں گی۔ ہم نے قرأت سنی ہے۔ مجھے ( طویل اور مختصر سورتوں کی) وہ نظائر یاد ہیں۔ جن کی تلاوت نبی کریم (ﷺ) کیا کرتے تھے اٹھارہ سورتیں مفصل ہوتی اور دو سورتیں جن کے شروع میں حٰم ہے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید اس لیے تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا تاکہ رسول کریم (ﷺ) کو حفظ اور ضبط کرنے میں آسانی ہو۔ 2۔ قرآن مجید اس لیے وقفے وقفے سے نازل کیا گیا تاکہ لوگوں تک پہنچانے میں آسانی ہو۔ 3۔ قرآن مجید اس لیے وقفے وقفے سے نازل کیا گیا تاکہ اس پر مسلمانوں کو عمل کرنا آسان رہے۔ 4۔ قرآن مجید اس لیے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا تاکہ کفار کو اس کے ناسمجھنے کا بہانہ ہاتھ نہ آئے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے : 1۔ آپ (ﷺ) پڑھیے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف :27) 2۔ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ (ﷺ) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (بنی اسرائیل :105) 3۔ قرآن کو تر تیل کے ساتھ پڑھا جائے۔ (المزمل :4) 4۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ:131) 5۔ جب قرآن پڑھاجائے تو اسے خاموشی سے سنو۔ (الاعراف :204) 6۔ ہم آپ پر تمام انبیاء کے واقعات آپ کے دل کو مضبوط کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں۔ ( ہود :120) 7۔ قرآن بڑی شان والا ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ (الواقعۃ: 77تا79)