وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا (١) اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے۔
فہم القرآن: (آیت 25 سے 26) ربط کلام : جس دن کفار کے عمل ریت کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو بہترین قیام اور آرام دیا جائے گا۔ اس دن کی ابتداء اس طرح ہوگی۔ قیامت کے دن زمین و آسمانوں کو بدل دیا جائے گا اور ان کی جگہ نئی زمین اور نیا آسمان معرض وجود میں لایا جائے گا۔ (ابراہیم :48) محشر کے میدان میں رب کبریا کی عدالت قائم ہوگی تو اس سے پہلے آسمانوں سے گروہ در گروہ ملائکہ اتارے جائیں گے۔ جو رب ذوالجلال کے جلوہ گر ہونے سے پہلے اس کی عدالت میں قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ تمام جن و انس رب ذوالجلال کے جلوہ افروز ہونے کے منتظر ہوں گے۔ اچانک آسمان پھٹ جائے گا اور ملائکہ کا نزول شروع ہوگا ہر فرشتہ حکمِ الٰہی کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹی پر کھڑا ہوجائے گا۔ باقی ملائکہ قطار اندر قطار دست بستہ حاضر ہونگے۔ اسی دوران آٹھ (8) فرشتے رب ذوالجلال کا عرش اٹھائے ہوئے نمودار ہوں گے۔ (الحاقۃ:17) جونہی خالق کائنات جلوہ نماہوں گے تو زمین بقعہ نوربن جائے گی۔ اس طرح عدالت کبریٰ کی کارروائی کا آغاز ہوگا۔ اس دن کی ہولناکیاں اور رب ذوالجلال کی جلالت وہیبت دیکھ کر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی نَفْسِیْ، نَفْسِیْ کی درخواست کر رہے ہوں گے۔ اس وقت اعلان ہوگا کہ آج صرف رب رحمن کی بادشاہی ہے یہ دن کفار کے لیے نہایت ہی سخت ہوگا۔ لیکن یہاں یہ نہیں فرمایا کہ قیامت کے دن ” اللہ کی“ بادشاہی ہوگی اور ” اللہ“ اس دن کا مالک ہوگا۔ ” اللہ“ کی بجائے الرّحمن کا اسم استعمال فرمایا، تاکہ معلوم ہو کہ الرّحمن کی طرف سے کفار پر بھی کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ اسم ” اللہ“ میں جلال ہے اور اسم الرّحمن میں رحمت اور شفقت پائی جاتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَیَطْوِی السَّمَاءَ بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿مَلِکِ النَّاسِ ﴾] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ أُتِیَ النَّبِیُّ (ﷺ) یَوْمًا بِلَحْمٍ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ یَجْمَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ، فَیُسْمِعُہُمُ الدَّاعِی، وَیُنْفِدُہُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْہُمْ فَذَکَرَ حَدِیث الشَّفَاعَۃِ فَیَأْتُونَ إِبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ أَنْتَ نَبِیُّ اللَّہِ وَخَلِیلُہُ مِنَ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَیَقُولُ فَذَکَرَ کَذَبَاتِہِ نَفْسِی نَفْسِی اذْہَبُوا إِلَی مُوسَی) [ رواہ البخاری : باب النَّسَلاَنُ فِی الْمَشْیِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آپ کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلوں پچھلوں کو ایک جگہ جمع فرمائے گا ہر آدمی پکارنے والے کی آواز کو سنے گا اور اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ سورج قریب تر ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے شفاعت والی حدیث کا تذکرہ کیا کہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے۔ آپ اللہ کے نبی ہیں اور زمین میں اس کے خلیل ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کیجیے، وہ اپنے کذب کا عذرپیش کرتے ہوئے کہیں گے (نَفْسِی نَفْسِی) اے اللہ میرے نفس کو بچا لے، میرے نفس کو بچا لے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن صرف رب رحمن کی بادشاہی ہوگی۔ 2۔ قیامت کا دن کفار کے لیے بہت بھاری ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کا دن بہت بھاری ہوگا : 1۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 2۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 3۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ:1) 4۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) 5۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ :4) 6۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ:5) 7۔ قیامت کا دن انتہائی خوف ناک ہوگا۔ (ھود :26) 8۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : 3، 4) 9۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑتی گردکی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: 5، 6)