وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 21 سے 22) ربط کلام : کفار کی ایک اور ہرزہ سرائی۔ سرورِ دو عالم (ﷺ) کی پر خلوص اور بے مثال جدو جہد کے مقابلہ میں کفار اس حد تک لاجواب اور بوکھلا ہٹ کا شکار ہوئے کہ وہ ہر روزنئے سے نیا مطالبہ کرتے۔ اس حواس باختگی میں انھیں یہ بھی خبر نہ رہی کہ ہم کس قدر متضاد اور بے مقصد اعتراضات اور سوال کرتے ہیں۔ حواس باختگی کے عالم میں انھوں نے یہ بھی سوال کر ڈالا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کے پاس فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ہمارے پاس کیوں نہیں آتے۔ ہم اس پر ایمان تب لائیں گے کہ جب ہم پر براہ راست فرشتے نازل ہوں یا پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے رب کو دیکھ لیں۔ اس کے سوا ہم اس نبی پر ایمان لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کفار کی حواس باختگی کا یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس قسم کے مطالبات کرنا صرف اس لیے ہے کہ ان کے دلوں میں فخر و غرور بھر چکا ہے جس وجہ سے یہ کسی دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس بنا پر بغاوت اور سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں اور فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس دن فرشتے ان کے سامنے آکھڑے ہوں گے تو وہ دن خوشی کی بجائے ان کے لیے پریشانی اور تباہی کا دن ہوگا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس قوم پر فرشتے نازل کیے گئے اسے نیست ونابود کردیا گیا، جس طرح قوم لوط اور دیگر اقوام کا حال ان کے سامنے ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس موت کے وقت فرشتے آتے ہیں تو وہ انہیں جنت کی بجائے جہنم کی خبر دیتے ہیں۔ جہنم کی خبر سنتے ہی مجرم کہتے ہیں کہ کاش ہم اس سے بچ جائیں۔ اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے کہ فرشتوں کو دیکھ کر کفار کہیں گے کاش ! ہمیں تم سے پناہ مل جائے۔ یاد رہے کہ ہر مجرم ملائکہ کو تین بار ضرور دیکھے گا (موت کے وقت، قبر میں، محشر کے میدان میں) اور ہر بار ظالموں کے لیے ان کا دیکھنا پہلے سے زیادہ اذّیت ناک ہوگا۔ (عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ یَہُودِیَّۃً دَخَلَتْ عَلَیْہَا، فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَہَا أَعَاذَکِ اللَّہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِفَسَأَلَتْ عَاءِشَۃُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَۃُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) بَعْدُ صَلَّی صَلاَۃً إِلاَّ تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ] ” سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک یہودی عورت آئی وہ قبر کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی تجھے اللہ عذاب کے قبر سے محفوظ فرمائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ (ﷺ) سے عذاب قبر کے متعلق پوچھا آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔)“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ (رض) سے وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی۔ انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ حق کے منکر فخر و غرور کی وجہ سے حق کا انکار کرتے ہیں۔ 2۔ متکبر شخص پر لے درجے کا نافرمان ہوتا ہے۔ 3۔ مجرم لوگ ملائکہ کو دیکھ کر آہ و زاری کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: ملائکہ کے نزول کا مطالبہ : 1۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) سے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ہیں۔ ( الحجر :7) 2۔ کفار اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے۔ ( الانعام :158)