فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا
تو انہوں نے تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی (١) تم میں سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔
فہم القرآن: ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صلحاء کی عاجزانہ وضاحت کے بعد اللہ تعالیٰ کا اعلان۔ انبیاء کرام، نیک علماء اور صلحاء حضرات کی عاجزانہ اور معذرت خواہانہ وضاحت سننے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تمہاری معذرت قبول کی جاتی ہے کیونکہ تم لوگوں کو عقیدہ توحید بتلاتے اور سمجھاتے رہے لیکن انہوں نے تمہیں جھٹلادیا لہٰذا تم میں اس بات کا کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ تم ان کی کسی قسم کی مدد کرسکو یا ان سے عذاب ٹال سکو۔ اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں، کیونکہ میرا فیصلہ تھا اور ہے کہ تم میں جو بھی ظلم کرے گا میں اس کو زبردست عذاب میں مبتلا کروں گا لہٰذا آج شرک کرنے والوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ ظلم سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ﴾ قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلّ ﴿إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ﴾) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی﴿الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ﴾ رسول معظم (ﷺ) کے صحابہ (رض) نے پوچھا ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بلا شبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ ﴿اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہ النَّارُوَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍٍ﴾[ المائدہ :72] ” بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ظالم کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں، آپ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے لیے ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دے گا وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرناراوی کا خیال ہے کہ آپ (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا کہ میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک کرنے سے باز نہ آیا۔“ مسائل: 1۔ شرک کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ 2۔ ظالم کی قیامت کے دن کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ 3۔ ظالم کو زبردست عذاب دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: شرک پرلے درجے کا ظلم ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہوں نبی اکرم (ﷺ) کا اعلان۔ (الانعام :164) 2۔ جو اللہ کی ملاقات چاہتا ہے وہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف :110) 3۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ (النساء : 48تا116) 4۔ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (المائدۃ:72) 5۔ حضرت لقمان کی نصیحت کہ اے بیٹے شرک نہ کر شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان :13) 6۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء :36)