بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ الفرقان۔ سورۃ نمبر ٢٥۔ تعداد آیات ٧٧)
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الفرقان کا تعارف : ربط سورۃ: سورۃ النور کا اختتام اس بات پر ہوا کہ ” اللہ“ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کے انجام سے آگاہ کرے گا۔ برے انجام سے بچانے کے لیے اس نے تمہارے پاس اپنا رسول بھیجا ہے تاکہ برے کاموں کے برے انجام سے تمہیں آگاہ کرے۔ یہ سورۃ 6 رکوع 77 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ فرقان کا معنٰی ہے سچ اور جھوٹ، حق اور باطل میں فرق واضح کرنے والی کتاب۔ سورۃ کا آغاز ” اللہ“ کی ذات با برکات کے نام سے ہوا ہے۔ جس نے قرآن نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ نبی (ﷺ) اس قرآن کے ذریعے حق وباطل، سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق واضح فرما دیں۔ اس کی ابتدا اس پیغام سے ہوئی ہے کہ یہ قرآن رسول عبد پر نازل کیا گیا، جس کی دعوت توحید خالص ہے، تاکہ لوگ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت اور غلامی اختیار کریں، مگر اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ کسی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی موت وحیات اور مر کے جی اٹھنے کا بھی انہیں اختیار نہ ہے۔ یہ لوگ رسول (ﷺ) کی عبدیت کا انکار کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ تو ملائکہ ہونے چاہیں تھے جو اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے، یہ لوگ زبان درازی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ رسول تو سحر زدہ ہے۔ اے نبی (ﷺ) توجہ فرمائیں کہ یہ لوگ کس حد تک ہدایت سے بے توفیق ہوچکے ہیں۔ انہیں اس ہرزہ سرائی کے انجام کا قیامت کے دن علم ہوگا۔ جب اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم رسول کو چھوڑ کر ایرے غیرے کے پیچھے نہ لگتے۔ انہیں یہ بھی اعتراض ہے کہ قرآن ایک مرتبہ نازل کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ اعتراض اٹھانا ان کی گمراہی کی انتہا ہے۔ ہم قرآن اس لیے تھوڑا تھوڑا آپ (ﷺ) اور ان کے مناسب حال نازل کرتے ہیں۔ تاکہ آپ کا دل مضبوط ہو اور انہیں قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن یہ اپنی گمراہی کے سبب اس سہولت کو بھی مخالفت کاذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی آل فرعون، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور اصحاب الرّس نے اس قسم کے اعتراضات کیے اور تباہ ہوئے۔ دراصل جو شخص اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لے اس کی آپ راہنمائی نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ جانوروں کی مانند ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان کے سامنے سورج ” اللہ“ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ رات کے آرام، دن کے وقت تازہ دم ہو کر کام کاج کرنا، ہواؤں کا بحری سفر میں ان کے موافق چلنا بارش کا نازل ہونا اور اس کے ذریعے جانوروں اور لوگوں کا فائدہ اٹھانا۔” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، انہیں دیکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی رب نے دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کر رکھا ایک پانی میٹھا اور دوسرا کڑوا ہے۔ اسی نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کے ننہیال اور سسرال بنائے پھر بھی اس حقیقی خالق اور عظیم مالک کا انکار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود الرّحمن اسے سب کچھ عنایت کیے جا رہا ہے۔ یہ اسے ماننے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم الرّحمن کو نہیں جانتے اور نہ اسے سجدہ کریں گے۔ سورۃ کے آخر میں الرحمن کو ماننے والے بندوں کی صفات کا ذکر کیا گیا۔ جو کسی قسم کی اکڑ پھکڑ نہیں کرتے رات کو اٹھ کر اپنے رب سے معافی طلب کرتے ہیں، اس کے دیے ہوئے کوا للّوں تللّوں میں ضائع نہیں کرتے ان کی چال وافعال اور معاملات میں اعتدال ہوتا ہے وہ برائی اور لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے رب کی آیات اور نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں اور اولاد کا سکون مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے گا۔ جس میں ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا اور یہ ہر قسم کا آرام پائیں گے۔