وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں (١)
فہم القرآن: (آیت 49 سے 50) ربط کلام : منافق کی عادات کا ذکر جاری ہے۔ منافق کی منافقت کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے فائدے کی خاطر کبھی اسلام اور کبھی کفر کو ترجیح دیتا ہے اگر کسی قضیہ میں فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے تو وہ اسلام، اسلام پکارتا ہے اور مسلمانوں کی تعریفیں کرتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو تو وہ اسلامی نظام کے نقائص بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں منافقت کی بیماری ہوتی ہے اس لیے وہ اسلامی نظام عدل سے خوف کھاتا اور سمجھتا ہے کہ اسے تسلیم کرنے سے میرا نقصان ہوگا۔ یہی حالت نبی اکرم (ﷺ) کے زمانے میں منافقوں کی تھی۔ جب انہیں کسی معاملہ میں یہ دعوت دی جاتی کہ آؤ۔ اللہ اور اس کے رسول سے اس کا فیصلہ کرواتے ہیں تو وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسول ہمارے حق میں فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس لیے یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول کسی پر ظلم نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں (سورۃ البقرہ کی آیت 10کی تشریح میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جسمانی اور دوسری روحانی۔ منافقت روحانی بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری ہے جس سے روحانی بیماریاں اور اخلاقی جرائم جنم لیتے ہیں۔ ﴿یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن﴾ [ البقرۃ: 9، 10] ” وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ (عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر) ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتیں ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور آنکھ کو خیانت سے پاک فرما۔ تو خیانت کرنے والی آنکھ کو جانتا ہے اور دلوں کے راز سے واقف ہے۔“ مسائل: 1۔ منافق وہی فیصلہ تسلیم کرتا ہے جس میں اس کا مفاد پایاجائے۔ 2۔ منافق عدل اسلامی سے ڈرتے ہیں۔ 3۔ منافق اپنے آپ اور دوسروں پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: منافق کی عادات : 1۔ منافق کو مسلمان کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران :120) 2۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون :1) 3۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ:14) 4۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ:20) 5۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ :14) 6۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون :8) 7۔ منافق دین کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران :167) 8۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء :142) 9۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ :10) 10۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ ( النساء :142) 11۔ منافق اسلام اور کفر کے درمیان رہتا ہے۔ ( النساء :143) 12۔منافق صحابہ کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ( البقرۃ:13) 13۔ منافق جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ ( النساء :145)