سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کردینے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : صالح کردار اور بہتر انجام پانے والے نیک لوگوں کے ذکر کے بعد کفار کا تذکرہ۔ جن لوگوں نے توحید ورسالت اور آخرت کا انکار کیا بے شک وہ جس قدر اچھے اخلاق اور بہتر کردار کے حامل ہوں۔ ان کے اعمال کی مثال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہے۔ جسے پیاسا آدمی دور سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی سمجھتا ہے جب پیاس بجھانے کے لیے اس کے پاس جاتا ہے تو تھکاوٹ اور مایوسی کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا یہی حال قیامت کے دن کافر اور مشرک کا ہوگا، جو دنیا میں یہ سمجھ کر فلاح و بہبود کے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا رہا کہ اسے موت کے بعد بھی فائدہ پہنچے گا۔ لیکن عقیدہ توحید صحیح نہ ہونے، نبی آخر الزماں (ﷺ) کی رسالت پر ایمان نہ لانے اور آخرت کے حساب و کتاب پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے موت کے بعد اس کی حالت اس پیاسے شخص جیسی ہوگی جو پیاس سے تلملا تا ہوا پانی سمجھ کر سراب کی طرف گیا لیکن وہاں پہنچ کر اسے تھکاوٹ اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بے انتہا پیاس کی شدّت اور سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہے اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا ہے اب اسے ذات کبریا کے سوا کوئی سہارا نظر نہیں آتا گویا کہ وہ ذات اس کے سامنے ہے جس کا انکار کرتا تھا، جائے تو کہاں جائے یہی حالت کفار کی ہوگی۔ جب قیامت کے دن اپنے اچھے اعمال اور صدقہ وخیرات کو رائیگاں پائیں گے جو انہوں نے خون پسینے کی کمائے سے خیراتی کاموں میں صرف کیے نہ صرف وہ رائیگاں ہوں گے بلکہ ان کے لیے عذاب میں اضافہ کا سبب ثابت ہوں گے۔ اس وقت ان کی پریشانی اور حسرت میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کے کفر کی پوری پوری سزا دے گا۔ جو دنیا کی زندگی اور اس کے وسائل کو دائمی سمجھتے تھے انہیں ان کی موت کے بعد جلد حساب چکا دیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ جلد حساب لینے کا تصور دے کر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی اور تھوڑی ہے۔ ﴿قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلًا﴾ [ بنی اسرائیل :84] ” فرما دیں ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے کہ کون سیدھے راستے پر ہے۔“ مسائل: 1۔ کفار کے اعمال کی مثال سراب کی طرح ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ 2۔ جس طرح سراب پر پہنچ کر پیاسے آدمی کی پریشانی اور تھکاوٹ میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح قیامت کے دن کفار کا حال ہوگا۔ 3۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا پورا حساب چکا دے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کفار کے اعمال کی حیثیت : 1۔ کفار کے اعمال اس طرح غارت ہوجائیں گے جیسے تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے (ابراہیم :18) 2۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال تباہ کردیے گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبۃ:17) 3۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ وبرباد کردیے جائیں گے۔ (التوبۃ:69) 4۔ جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ (الکھف :105) 5۔ جو لوگ ہماری آیات کی اور آخرت میں ملاقات کی تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) 6۔ کافر کے اعمال غارت ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (المائدۃ :5)