إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
بیشک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم
فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید اپنے اسلوب کے مطابق احکامات جاری کرتے ہوئے نصیحت بھی کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ذہن ازخود آمادہ ہوجائے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ جب قانون اور ضابطے بیان کرتا ہے تو اس دوران لوگوں کے اخلاق میں نکھار پیدا کرنے اور ایمان کو جلا بخشنے کے لیے نماز، آخرت، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور جزا‘ سزا میں سے کسی ایک کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ دین کے احکام لوگوں کے ذہن میں محض ضابطے اور قانون کے طور پر نہیں بلکہ عبادت، قیامت میں پیشی کا تصور، خوف خدا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے طور پر سامنے رہیں۔ سماجی تعلقات ہوں یا کاروباری معاملات، امتناعی احکامات ہوں یا ترغیبی ارشادات ان کے دوران اسی فلسفہ کے تحت یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی سود کی حرمت اور قباحت واضح کرنے کے دوران فکر آخرت، نماز اور زکوٰۃ کا حکم دے کریہ تصور دیا گیا ہے کہ جس طرح تم خدا کا حکم سمجھ کر نماز میں اس کے سامنے سرفگندہ ہوتے ہو اور نماز کا صلہ اللہ کے پاس تمہارے لیے موجود ہے اور تمہیں مستقبل میں کوئی خوف وخطر نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہی سود اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑدو اور اس اللہ کے سامنے جھک جاؤ اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ لہٰذا سود لینے اور لوگوں کا مال کھانے کی بجائے صدقہ اور زکوٰۃ دینے والے بن جاؤ۔ مسائل : 1۔ ایماندار، نیکو کار، نمازی، اور زکوٰۃ دینے والے کو نہ خوف ہوگا نہ غم۔ تفسیر بالقرآن : خوف سے بے نیاز حضرات : 1۔ اولیاء اللہ خوف اور غم سے پاک ہوں گے۔ (یونس :62) 2۔ استقامت دکھلانے والے خوفزدہ وغمگین نہ ہوں گے۔ (الاحقاف :13) 3۔ جنتی لوگوں کو خوف وغم نہ ہوگا۔ (الاعراف :49)