يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو (١) ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کرلو تو (٢) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے
فہم القرآن : (آیت 267 سے 268) ربط کلام : سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ جو تم کمائی کرتے ہو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں اس میں سے پاک اور طیّب مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کیا کرو۔ یہاں طیّب سے مراد حلال، پاک اور نفیس مال ہے کیونکہ ایسا مال خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جو آدمی کسی سے خود لینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس حرکت سے نفرت دلانے کے لیے ایسے صدقے اور مال کو خبیث کہا گیا ہے جس میں وہ تمام نقائص شامل ہوجائیں جو ایک شریف آدمی کے لیے نہایت ہی ناگوار ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ تم ایسے مال کو کسی مجبوری یا چشم پوشی کے سوا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح تصور کرتے ہو کہ وہ تمہارا مسترد اور ناپسندیدہ مال پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمائے گا؟ ایسے صدقے سے نہ تو دل بخل سے پاک ہوتا ہے اور نہ ہی لینے والے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص اجرو ثواب سے بھی محروم رہے گا۔ لہٰذا بطور انتباہ فرمایا جارہا ہے کہ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کو ایسے صدقہ کی ضرورت نہیں وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر حال میں لائقِ تعریف ہے۔ صدقہ کرتے ہوئے ناقص مال دینا یاحرام مال اللہ کے راستے میں خرچ کرکے اجر کی توقع رکھنا یہ شیطان کی طرف سے جھوٹی امید کا نتیجہ ہے۔ شیطان تمہیں غریب ہوجانے کا خوف دلاتا ہے۔ ناقص اور حرام مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کر حقیقتاً شیطان تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ عقل مند مسلمان کے سچے جذبات کے منافی ہے کہ صدقے کے نام پر حرام مال خرچ کرے جس کے لینے سے ہی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ گویا کہ انتہاء درجے کی بے حیائی اور ڈھٹائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حرام سے منع کرے اور تم اس کے نام حرامچیز دو اور پھر اس میں ثواب کی امید بھی رکھو۔ یہ سراسر شیطانی عمل ہے جب کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے کے بدلے تمہارے گناہ معاف کرنے اور مزید عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّھَاالنَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿یَاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ﴾ وَقَالَ ﴿یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ﴾) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : لوگو ! اللہ پاک ہے ا ورپاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال کھاؤ۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی راہ میں پاک مال دینا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، شیطان غربت اور بے حیائی کا وعدہ کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن : شیطان کے وعدے تباہی کا پیش خیمہ ہیں : 1۔ شیطان بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ:169) 2۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ:268) 3۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل :64)