أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ
کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 55 سے 56) ربط کلام : دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ایک سبب دنیوی مفاد ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کا ملت کو تقسیم کرنے کا ایک مقصد مال کی ہوس بھی ہے۔ یہ مال امت کو تقسیم کرنے یا دین کو نقصان پہنچانے سے حاصل ہوا ہو۔ یا اللہ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہو۔ بہرحال قوموں کے سنوار اور بگاڑ میں مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ راہ راست سے ہٹ جائیں تو دین کو اتحاد کی بجائے گروہ بندی، اخلاص کی بجائے آمدن کاذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مال اور اولاد میں بڑھائے دیتا ہے وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہے جس کی وجہ سے ہمیں مال اور افرادی قوت سے نوازا جا رہا ہے ایسے لوگوں کو سوالیہ انداز میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جو انہیں مال اور اولاد سے نوازا گیا ہے یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ ؟ ایسا ہرگز نہیں یہ مہلت اور اسباب خیر کے طور پر دیے جانے کی بجائے آزمائش کے طور پر دیے گئے ہیں جس کی حقیقت سے یہ بے خبر ہیں۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس بات کو یوں بیان کیا ہے کفار یہ گمان نہ کریں انہیں جو ہم مہلت دیتے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے ہم انہیں اس لیے مہلت دیے ہوئے ہیں تاکہ وہ اور زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہے۔ (آل عمران :178) ” جو لوگ ناکردہ نیکیوں کی تعریف چاہتے ہیں ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے بچ جائینگے ہرگز نہیں انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔“ (آل عمران :188) مسائل: 1۔ کفار کے لیے مال اور اولاد گناہ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ 2۔ بعض لوگوں کو مال و دولت خیر کی بجائے برے انجام کے لیے دیا جاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان حقیقی شعور سے تہی دامن ہوتے ہیں۔