سورة المؤمنون - آیت 24

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے (١) اگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا (٢) ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں (٣)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 24 سے 25) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں ان کی قوم کے سرداروں نے پانچ الزام لگائے۔ 1۔ یہ تمہارے جیسا بشر ہے 2۔ یہ تم پر برتری یعنی اقتدار چاہتا ہے۔ 3۔ اگر اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجنا ہوتا تو کسی فرشتے کو نازل کرتا۔ لہٰذا یہ جھوٹا ہے 4۔ ہم نے ایسی بات اور دعوت اپنے آباؤ اجد سے نہیں سنی۔ 5۔ نوح پاگل ہوگیا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت کیا دی تھی ؟ اور اس کے جواب میں قوم کے لیڈروں نے اپنی اپنی پارٹی اور ور کر کو قابو میں رکھنے کے لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کن باتوں کا پراپیگنڈہ کیا۔ لیڈروں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے اثرات سے خوفزدہ ہو کر قوم کو نوح (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکا دیا۔ قوم کے لیڈروں کا اس لیے نام لیا گیا ہے کہ سب سے پہلے انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر قوم کا عقیدہ صحیح ہوگیا اور قوم اپنے رب کی بندگی میں لگ گئی تو ہماری لیڈری نہیں چل سکے گی۔ اس لیے سب سے پہلے لیڈروں نے مخالفت کی اور الزام لگایا کہ نوح (علیہ السلام) میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے جس بناء پر اس کے پیچھے لگاجائے جس طرح یہ انسان ہے اس طرح تم بھی ایک انسان ہو۔ حالانکہ نوح (علیہ السلام) کردار اور جمال کے اعتبار سے اپنی قوم میں ممتاز اور منفرد انسان تھے۔ لیکن قوم حضرت نوح (علیہ السلام) اور اپنے لیڈروں کے درمیان فرق نہ کرسکی جس طرح مکہ کی غالب اکثریت ابوجہل اور سرور دوعالم (ﷺ) کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہی۔ قوم کے سرداروں نے دوسرا الزام یہ لگایا کہ نوح (علیہ السلام) دعوت توحید اور رب کی بندگی کے بہانے تم پر عزت اور اقتدار چاہتا ہے یہی الزام اہل مکہ نے سرور دو عالم (ﷺ) پر لگایا تھا۔ تیسری بات قوم نے یہ کہی کہ نوح (علیہ السلام) خواہ مخواہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر ہماری اصلاح مقصود ہوتی تو کسی فرشتے کو نازل کرتا۔ اسی بہانے ہی اہل مکہ نے نبی اکرم (ﷺ) کی نبوت کا انکار کیا۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے چوتھی بات یہ کہی کہ یہ تو من گھڑت اور انوکھی بات ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنے بزرگوں سے ایسی بات نہیں سنی۔ یہی دلیل اہل مکہ نے سروردوعالم (ﷺ) کے سامنے پیش کی کہ جس بات کی آپ دعوت دیتے ہیں ہم نے ایسی بات اس سے پہلے آج تک نہیں سنی (ص :7) حضرت نوح (علیہ السلام) پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ ایسا الزام ہی سروردوعالم (ﷺ) پر لگایا گیا (القلم :2) مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنے جیسا انسان قرار دیا۔ 2۔ نوح (علیہ السلام) پر قوم نے دعوت کے بدلے اقتدار حاصل کرنے کا الزام لگایا۔ 3۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آباؤ اجداد کی تقلید اور رسم ورواج کو ترجیح دی۔ 4۔ قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) پر پاگل ہونے کا الزام لگایا۔ تفسیر بالقرآن: قوم کے حضرت نوح (علیہ السلام) پر الزامات : 1۔ قوم نے نوح کو گمراہ قرار دیا۔ (الاعراف :60) 2۔ قوم نے الزام لگایا کہ نوح پاگل ہے۔ (المومنون :25) 3۔ لیڈروں نے کہا کہ نوح تو ہم جیسا انسان ہے۔ (ہود :27) 4۔ یہ ہم پر لیڈری چمکاتا ہے۔ (المومنون :24) 5۔ ہم تو اس میں کوئی خوبی نہیں دیکھتے۔ (ہود :27) 6۔ اس کے چاہنے والے گھٹیا لوگ ہیں۔ (ہود :27) 7۔ اے نوح تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ (الشعراء :116) 8۔ قوم نے نوح سے اپنے چہرے چھپا لیے۔ (نوح :7) 9۔ کفار نے حضرت نوح کے خلاف زبردست مکاریاں کیں۔ (نوح :7) 10۔ ہمارا تمہار جھگڑا طویل تر ہوگیا ہے نوح تو سچا ہے تو بس عذاب لے آ۔ (ہود :32)