وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔
فہم القرآن: ربط کلام : انسان کو اس کی تخلیق اور قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بتلانے کے بعد ان سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی گی ہے قدرت کی نشانیوں میں سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ انسان اپنے رب کو سمجھے اور اس کی بندگی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا ہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اس لیے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے انہوں نے اپنی قوم کو پہلا سبق یہی دیا کہ انسان کو صرف ایک رب کی بندگی کرنی چاہیے اس کے سوا کسی کی بندگی کرنے کی اجازت نہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں سے یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کا اس لیے تذکرہ کیا ہے کہ یہ ایسے نبی اور رسول ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ طویل عرصے تک دوسرے مسائل: کے ساتھ ساتھ پہلا اور بنیادی مسئلہ یہ سمجھایا کہ اے میری قوم کے لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے سے باز نہیں آؤ گے؟ مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو صرف ایک رب کی عبارت کرنے کا حکم دیا۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو غیر اللہ کی عبادت کرنے سے منع کیا۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کے نقصانات سے ڈرایا۔