وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے۔ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔
فہم القرآن: (آیت 21 سے 22) ربط کلام : پانی اور نباتات سے چوپائے زندہ رہتے ہیں اور چوپاؤں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بڑے فائدے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کو اپنی قدرت کی نشانی بتلا کر اس سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چوپاؤں کی دس قسمیں ہیں۔ ان میں اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ ایسے چوپائے ہیں جن سے انسان بہت سے فائدے حاصل کرتا ہے۔ ان کا دودھ پینے کے علاوہ مکھن، گھی، دہی اور بہت سی دوسری چیزیں بنانے کے کام آتا ہے۔ ان چوپاؤں کا گوشت کھایا جاتا ہے بکری اور بھیڑ کے سوا حلال چوپاؤں اور گدھے اور گھوڑے پر سواری کی جاتی ہے۔ جہاں تک ان چوپاؤں اور گھوڑوں کا تعلق ہے ان سے کھیتی باڑی اور سواری کا کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوپاؤں کی اون، بال، چمڑی اور ہڈیوں تک استعمال ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ نامعلوم انسان ان سے اور کتنے فائدے اٹھائے گا جس کے لیے کثیر منافع کا لفظ استعمال فرما کر مزید منفعت حاصل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چوپاؤں میں انسان کے لیے یہ بھی عبرت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں انسان کے تابع نہ کرتا تو کس کی مجال ہے کہ وہ گھوڑے، اُونٹ اور ہاتھی جیسے طاقتور حیوان کو اپنے تابع کرلیتا۔ اس لیے ان پر سوار ہوتے وقت دعا سکھلائی گئی ہے [ الزخرف : 13۔14] مسائل: 1۔ جانور چوپائے بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ 2۔ چوپاؤں سے انسان بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں چوپاؤں کا ذکر : 1۔ اللہ نے چوپایوں کو انسانی ضروریات اور زیب زیبائش کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (النحل : 5۔6) 2۔ قربانی کے ایام میں ان پر اللہ کا نام لیں چوپائے اللہ نے تمھیں عطا کیے ہیں پس تم ان میں سے کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔ (الحج :28) 3۔ تمہارے لیے چوپایوں میں بہت زیادہ فائدہ ہے اور انہیں تم کھاتے ہو۔ (المومنون :21)