بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ المؤمنون۔ سورۃ نمبر ٢٣۔ تعداد آیات ١١٨)
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ المؤمنون کا تعارف : ربط سورۃ: سورۃ حج کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ اے مسلمانوں ” اللہ“ ہی تمہارا مولیٰ ہے وہ بہترین مولیٰ، خیرخواہ اور بہترین مددگار ہے۔ اگر تم نماز، زکوٰۃ اور اخلاقی حدود کی پابندی کرو گے تو کامیابی تمہارا مقدر بن جائیگی جس کی تمہیں گارنٹی دی جاتی ہے۔ یہ سورۃ 6 رکوع 118 آیات پر مشتمل ہے اس سورۃ کا نزول مکہ معظمہ میں اس وقت ہوا جب صحابہ کرام (رض) ہر قسم کے مظالم کا شکار تھے اور اہل مکہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے۔ اب یہ دعوت چند دنوں کی مہمان ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ کہہ کر خوشخبری دی کہ تم کامیاب ہوچکے ہو۔ بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ ناصرف تم دنیا میں کامیاب ہو گے بلکہ موت کے بعد جنت الفردوس میں داخل کیے جاؤ گے۔ اس جنت الفردوس میں جس سے آدم (علیہ السلام) نکالے گئے تھے۔ اس لیے تخلیق انسان کے مختلف مراحل کا ذکر فرماکر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس کے بعد قدر تفصیل کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی جدوجہد اور ان کی قوم کے ردِّ عمل کا تذکرہ فرمایا۔ پھر چند آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور فرعون کے استکبار کا ذکر کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کا نہایت مختصر ذکر کیا اور فرمایا کہ تمام رسل ایک ہی دعوت کے داعی اور ایک ہی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر فرقہ اپنے کیے پر نازاں ہے۔ فرقہ واریت کے پیچھے سب سے زیادہ دخل ذاتی اور جماعتی نظریات اور مفادات کا ہوتا ہے۔ اس سوچ کی یہ کہہ کر نفی کی گئی ہے کہ اگر حق کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کردیا جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی رسول کریم (ﷺ) کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ غمزدہ کیوں ہوتے ہیں آپ ان سے کسی قسم کا تقاضا نہیں کرتے۔ آپ صراط مستقیم کے داعی کے طور پر کام کرتے جائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی زبان اطہر سے مختلف انداز اور الفاظ میں چار دفعہ یہ بات کہلوائی ہے کہ ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے۔ ساتوں آسمان اور عرش عظیم اور ساری کائنات کس کے قبضہ میں ہے ؟ کون ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ منکرین حق کا تمام سوالات کے جواب میں یہی کہنا تھا اور ہے کہ سب کچھ اللہ ہی پیدا کرنے والا اور وہی ان کا مالک ہے۔ ان کے اس اعتراف کے بعد یہ سمجھایا گیا ہے کہ پھر اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے باز کیوں نہیں آتے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ (ﷺ) سے جھگڑتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ (ﷺ) بہتر سے بہتر انداز میں تبلیغ کا کام جاری رکھیں۔ اگر کسی وقت شیطان آپ کو غصہ دلائے تو آپ شیطان سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگا کریں۔ سورۃ کے اختتام سے پہلے کفار کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تمہیں جہنم میں پھینکا جائے گا وہاں تم آہ زاریاں کرو گے مگر تمہاری کوئی فریاد نہیں سنی جائے گی۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا ہے کہ منکرین قیامت سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے حالانکہ انہیں ان کی موت کے بعد اٹھا کر ان سے سب کچھ پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی اس کی ذات، بادشاہی اور فرمان حق ہے، وہ عرش کریم کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ جو اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ اپنے رب سے استغفار کریں اور اس کی رحمت کے طلبگار رہیں کیونکہ وہی بڑا ارحم الرّاحمین ہے۔