وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ
اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے (١) اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی (٢) دین اپنے باپ ابراہیم (٣) (علیہ السلام) کا قائم رکھو اس اللہ (٤) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوجائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ (٥) پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا ولی اور مالک ہے۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا بہتر مددگار ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : پچھلی آیت کے آخر میں حکم ہے کہ نیکی کے کام کرتے رہو۔ اب حکم ہوا ہے کہ نیکی پوری محنت سے کرو اور نیکی ملت ابراہیم اور نبی آخر الزّمان کے طریقہ کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاد کا لفظ ” جُہَدْ“ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے ” کوشش کرنا“ مسلم اور غیر مسلم کی کوشش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرمسلم کی کوشش صرف دنیا کے لیے ہوتی ہے ایسا شخص بظاہر نیکی کا کام بھی کرے تو اس کے پیچھے بھی دنیا کا مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم کی یہ خوبی ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے رب کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر کرتا ہے۔ کیونکہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے کوشش کرو جس طرح کوشش کرنے کا حق ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا لفظ قتال فی سبیل اللہ کے لیے بھی بولا گیا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ ہو یا عبادت اور کوئی نیکی کا کام۔ وہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کام کے لیے پسند کرلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں رکھا جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کوئی کام انسان کے بس سے باہر ہوجائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس میں نرمی پیدا فرما دی ہے۔ دین کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ توحید ورسالت اور آخرت کے عقیدہ میں کوئی رخصت نہیں۔ لیکن عملی کاموں میں رخصتوں سے نوازا گیا ہے۔ آدمی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر ادا کرے۔ بیٹھ کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو لیٹ کر پڑھ سکتا ہے اگر ایسی تکلیف یا مجبوری ہے کہ قبلہ کی طرف منہ نہیں کرسکتا تو اجازت ہے کہ جس طرف چہرہ مڑ سکتا ہے اس طرف موڑ لے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر طرف توجہ ہوتی ہے حج کرنے کی استعداد نہیں تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ زکوٰۃ دینے کے لائق نہیں تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ دائمی بیماری کے باعث رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتا تو وہ دوسرے کو روزہ رکھوا سکتا ہے۔ غرض کہ دین کے کسی کام میں تنگی نہیں ہے۔ اس دین کے بنیادی ارکان وہی ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے۔ یہی دین اور نام پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ امت کا فرض ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل اور گفتار کے ذریعے لوگوں پر دین حق کی شہادت قائم کریں یہی سرور دو عالم (ﷺ) کی بعثت کا مقصد ہے۔ قیامت کے دن نبی اکرم (ﷺ) اپنی امت پر گواہ ہوں گے اور یہ امت دوسری امتوں کی شہادت دے گی۔ اس شہادت کا حق تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ امت محمدیہ کے لوگ نماز باجماعت اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کریں اور ہر حال میں اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے اس کے دین پر قائم رہیں۔ ” اللہ“ ہی سب کا کارساز، جو بہترین کارساز اور بہترین مددگار ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ، تبلیغ دین اور اسلام کو اپنانے اور اس کو نافذ کرنے میں کسی نقصان سے ڈرنے اور کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملات کا ذمہ دار اور ہر کام میں تمہارا مددگار ہے۔ یقین رکھو کہ اس سے بہتر کوئی تمہارا خیر خواہ، ذمہ دار اور مددگار نہیں ہو سکتا۔ اس سورۃ مبارکہ کی ابتدافکر آخرت کے عقیدہ سے ہوئی اس کا اختتام عقیدہ توحید پر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ زور توحید کے ابلاغ پر ہونا چاہیے۔ یہی دین کی اساس اور سب سے بڑی شہادت ہے۔ لا الہ الا اللہ کے عقیدہ اور شہادت پر کسی جماعت کی اجارہ داری نہیں۔ یہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے معاملہ اور حلف ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمارا ذہن تعصّب سے پاک‘ گروہ بندی سے بالاتر ہونا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ ہمارے رب نے ہمیں کس لیے پیدا فرمایا ہے؟ اس کی ذات کو ہم نے کس طرح ماننا‘ اس کی صفات کو کس طرح سمجھنا اور اس کی عبادت کس طرح کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو اس کے حکم کے مطابق ماننے‘ سمجھنے اور اسکی خالص عبادت کرنے کا نام توحید اور یہی کلمہ کا تقاضا اور شہادت ہے اسی کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث کیے گئے۔ ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ [ الانبیاء :25] ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ اس عقیدہ کو یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا اور تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں جس طرح اس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں اس طرح اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس عقیدہ‘ عمل میں نقص واقع ہوجائے تو رسول کریم (ﷺ) کی محبت‘ بزرگوں کی عقیدت اور کوئی نیک سے نیک عمل بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسے آدمی کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات ہو پائے گی۔ محمد رسول اللہ کا معنٰی اور مفہوم یہ ہے کہ آپ (ﷺ) محبوبِ رب العٰلمین‘ سید المرسلین‘ خاتم النبیین اور ہمارے راہنما اور مقتدا ہیں۔ ہمارا ہر کام آپ کی سنت اور تابعداری میں ہونا چاہیے یہی سرور کائنات (ﷺ) کی محبت کا تقاضا اور آپکی رسالت کا مقصد ہے۔ کلمہ کا یہ مفہوم سمجھنا اور اس کا تقاضا پورا کرنا ہی ایمان ہے۔ یہی ایمان مسلمان میں ایک قوت اور حرکت عمل پیدا کرتا ہے ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (ﷺ) اور اس کی امّت۔ آپ نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] مسائل: 1۔ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دین کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ 3۔ اسلام ہی ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے روحانی باپ ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام پر چلنے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے۔ 6۔ قیامت کے دن امت محمدیہ دوسری امتوں پر شہادت دے گی۔ 7۔ سرور دو عالم (ﷺ) لوگوں پر دین حق کی شہادت قائم کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر مسلمانوں کا کوئی مولا اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ 9۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ پورے دین پر عمل کی کوشش کرتا رہے۔ تفسیر بالقرآن: دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں : 1۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ:256) 2۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء :80) 3۔ نبی (ﷺ) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل :54) 4۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص :56) تفصیل کے لیے میری کتاب پڑھیں ( دین تو آسان ہے!)