اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے، (١) بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے (٢)
فہم القرآن: (آیت 75 سے 76) ربط کلام : مشرکوں کو یہ اعتراض تھا کہ اللہ نے محمد (ﷺ) کو نبی کیوں منتخب کیا ہے ؟ حالانکہ دولت اور اثر رسوخ کے اعتبار سے اس سے فلاں فلاں آدمی زیادہ موزوں تھے۔ یہودیوں کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پر اعتراض ہے کہ اس نے ہمارے آباو اجداد پر عذاب نازل کیا ہے۔ اس لیے اس کی بجائے وحی لانے پر کسی اور فرشتے کو مامور کرنا چاہیے تھا۔ اب یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حسن انتخاب ہے کہ وہ ملائکہ میں جس کو چاہے اپنی وحی کے لیے منتخب فرمائے اور بندوں میں سے جس کو چاہیے نبی بنائے۔ وہ ہر بات سنتا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ یعنی اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس نیت کے ساتھ اعتراض کرتا ہے اور کس کا کیا کردار ہے ؟ وہ ہر کسی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹایا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کوئی اس کی توحید کا انکار کرے یا اس کے نبی کی رسالت یا جبریل امین کا بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اور سب کا انجام بھی اس کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ ” جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ زیادہ جانتا ہے کہ رسالت کسے دے۔ جنہوں نے جرم کیے عنقریب انہیں اللہ کے ہاں ذلّت اٹھانا پڑے گی اور انہیں سخت عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (الانعام :124) ” جو جبریل اور میکائل کا دشمن ہے وہ ” اللہ“ کا بھی دشمن ہے۔“ ( البقرۃ:97) مسائل: 1۔ کسی کو اپنے پیغام کے لیے منتخب کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ 2۔ سلسلہ نبوت حضرت محمد (ﷺ) پر ختم ہوچکا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ 4۔ سب کام اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹائے جاتے ہیں۔