يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، (١) بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے (٢) وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 73 سے 74) ربط کلام : شرک کے ناپائیدار اور بلا دلیل ہونے کی ایک اور دلیل۔ شرک کا عقیدہ اس قدر ناپائیدار اور کمزور ترین ہے کہ اگر اس پر معمولی سا غور کرلیا جائے تو اسے چھوڑنا انسان کے لیے نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مشرک شرک کے بارے میں انتہائی جذباتی ہوتا ہے جس وجہ سے مثال بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لوگو! تمھارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یعنی اس سے بدکنے کی بجائے اس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرو۔ بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بے شک وہ سب کے سب اس کام کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار، اگر مکھی کوئی چیز اڑا لے جائے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مرادیں مانگنے والا اور جن سے مرادیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اس کی قدر جاننے کا حق تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفصل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت مشرک کو مہلت دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ مکھی اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتا کسی چیز سے سیر نہیں ہوتے۔ اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے۔ (الاعراف : 173تا176) کردار کے اعتبار سے یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی عظمت اور برکت کو چھوڑ کر جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے۔ جنہیں اپنی پاکی، پلیدی کا خیال تک نہیں ہوتا۔ وہ ایسے لوگوں سے مانگتا ہے جو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور مزارات پر آنے والوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یہ تو کلمہ گو حضرات کا حال ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ تو شرک کرنے کی وجہ سے اس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں اور مجذوبوں کے نفس کی پوجا کرتے ہیں۔ درحقیقت مشرک نے اپنے رب کی قدر کو نہیں پہچانی۔ جس وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ذلیل کردیتا ہے۔ مشرک اپنے رب کی قدر پہچانے یا نہ پہچانے اللہ تعالیٰ ہر حال میں قوت والا اور غالب ہے۔ ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَار﴾ [ الحشر :2] اے عقل والو! عبرت حاصل کرو۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید میں مثالیں بیان فرماتا ہے۔ 2۔ قرآن کی امثال اور و نصیحت کو غور سے سننا چاہیے۔ 3۔ اللہ کے سوا کوئی کچھ بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ 4۔ مشرک ہر لحاظ سے کمزور ہوتا ہے۔ 5۔ اللہ کے علاوہ سب لوگ اس قدر بے بس ہیں کہ وہ مکھی سے ایک ذرّہ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ 6۔ مشرک اللہ کی قدر نہیں پہچانتا۔ 7۔ اللہ سب سے زیادہ قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔