وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آثار پہچان لیتے ہیں۔ وہ قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں، (٢) کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بدتر خبر دوں۔ وہ آگ ہے، جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے، (٣) اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے
فہم القرآن: ربط کلام : شرک کی دلیل نہ ہونے کے باوجود مشرک کا ردِّ عمل۔ مشرکانہ طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی ذات، صفات اور اسی ایک کی عبادت کرنے کا ذکر کیا جائے تو اسے ایسی بات اور واعظ اچھا نہیں لگتا۔ حتٰی کہ ایسی آیات کے ساتھ بے اعتنائی ظاہر کرتے ہیں۔ اہل مکہ کے سامنے سرورِگرامی (ﷺ) توحید پر مبنی آیات کی تلاوت کرتے تو طیش میں آکر ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے یہاں تک کہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرتے اور اس پر سرور گرامی (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ آج عقیدہ توحید کے ذکر کی وجہ سے تمھارے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں لیکن وہ وقت یاد کرو جب تمھیں جہنم میں پھینکا جائے گا اور جہنم کی آگ تمھارے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ کفار کے ساتھ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ جس جہنم میں تجھے پھینکا جائے گا وہ رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ اہل مکہ کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑ تھی وہ عقیدہ توحید تھا۔ نبوت کے ابتدائی دور میں مکہ والوں نے آپ کی ذات اور آپ کے ساتھیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے لیکن جب آپ کے ساتھی زیادہ ہوگئے بالخصوص حضرت عمر (رض) اور حضرت حمزہ (رض) ایمان لائے تو اہل مکہ نے مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ مصالحت کی پالیسی اختیار کی۔ انھوں نے بارہا دفعہ آپ سے مطالبہ کیا کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کرتے ہیں۔ (القلم :9) لیکن سرور دو عالم (ﷺ) نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ توحید اور شرک کا آپس میں معاہدہ اور ملاپ نہیں ہوسکتا۔ ” اے پیغمبر ! فرما دو کہ اے کافرو! جن کو تم پوجتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا اور جس الٰہ کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے۔ اور جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں۔ اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین ہے“ [ الکافرون] مسائل: 1۔ مشرک کی نشانی ہے کہ وہ توحید خالص کا تذکرہ سننا گوار انہیں کرتا۔ 2۔ توحید کا ذکر سنتے ہی مشرک کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ 3۔ توحید کے ذکر کے ردِّ عمل میں مشرک مواحد پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ 4۔ مشرک کو جہنم میں پھینکا جائے گا جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو ضرور جہنم میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن: توحید کے ردِّ عمل میں مشرک کی کیفیت : 1۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ( الصافات :35) 2۔ جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ ( الزمر :45) 3۔ جب تنہا ایک رب کی طرف بلایا جاتا ہے تو مشرکین اس دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المؤمن :12) 4۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو تو وہ انکار کرتے ہوئے مزید نفرت کرتے ہیں۔ ( الفرقان :60) 5۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباء واجداد کی پیروی کریں گے۔ ( البقرۃ:170) 6۔ جب قرآن میں تیرے اکیلے رب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :46)