وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ
کافر اس وحی الٰہی میں ہمیشہ شک شبہ ہی کرتے رہیں گے حتٰی کہ اچانک ان کے سروں پر قیامت آجائے یا ان کے پاس اس دن کا عذاب آجائے جو منحوس ہے (١)۔
فہم القرآن: ربط کلام : حق کے سامنے جھکنے والوں کے مقابلے میں انکار کرنے والوں کا رویہّ۔ اس سے پہلی آیت کی تشریح میں یہ اشارہ کیا ہے کہ ” اَلْعِلْم“ سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے اور جو لوگ قرآن و سنت کا انکار کرتے ہیں وہ حق بات کے بارے میں ہمیشہ شک کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے یا ان پر منحوس دن وارد ہوجائے۔ یہاں ایک بنیادی اور اصولی بات کا ذکر فرما کر مومن اور کافر کے دل کی کیفیت کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ مومن کے سامنے حق بات آئے تو اس کا دل اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کافر کے سامنے حق پیش کیا جائے تو اس کا دل مزید شک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بارش کی مثال سامنے رکھنی چاہیے بارش پھول پر ہو تو وہ اور زیادہ خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور اس کی مہک چار سو پھیلتی ہے۔ بارش گندگی کے ڈھیر پر برستی ہے تو اس کے تعفن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حق کے انکاری کے دل کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اور دور ہوجاتا ہے۔” یوم عقیم“ کا معنی ہے ” منحوس دن“۔ حقیقتاً کوئی دن اور وقت منحوس نہیں ہوتا یہ بات اس حوالے سے کہی گئی ہے کہ کفار کے لیے وہ گھڑی یا دن منحوس بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے قوم عاد پر مسلسل آٹھ دن آندھی کی صورت میں عذاب نازل کیا گیا۔ ان ایام کو اللہ تعالیٰ نے ﴿اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ ﴾کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جن کا معنٰی ہے منحوس دن۔ ( حٰم السجدۃ:16) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا عَدْوٰی وَلَا طِیْرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔) [ رواہ البخاری : باب الْجُذَامِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے۔ البتہ کوڑھے شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاَعْرَابِ یَاْتُوْنَ النَّبِیَّ (ﷺ) فَیَسْأَلُوْنَہُ عَنِ السَّاعَۃِفَکَانَ یَنْظُرُ اِلٰی اَصْغَرِھِمْ فَیَقُوْلُ اِنْ یَّعِشْ ھٰذَا لَا یُدْرِکُہُ الْھَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ) [ رواہ البخاری : باب سَکَرَاتِ الْمَوْتِ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کچھ دیہاتی نبی مکرم (ﷺ) کے پاس آئے انہوں نے قیامت کے بارے میں سوال کیا آپ (ﷺ) نے ان میں سے سب سے چھوٹے کی طرف دیکھا اور فرمایا‘ اگر یہ شخص زندہ رہا اس پر بڑھاپا نہیں آئے گا کہ تم پر قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فیہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِی مِنْہٗ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والے ابھی سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا۔ اس کو کھا نہیں سکے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل: 1۔ کفر کرنے والے کا دل حق بات کے بارے میں متذبذب رہتا ہے۔ 2۔ کفر پر قائم رہنے والا دنیا میں عذاب کے وقت اور قیامت قائم ہونے کے دن حق کا اعتراف کرے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت اچانک برپا ہوجائے گی : 1۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا دی جائے۔ (طہٰ:15) 2۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر :85) 3۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج :7) 4۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 5۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہے۔ (الحج :1) 6۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج :55) 7۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان :11)