لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
یہ اس لئے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں (١) بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : پہلی بات کا تتمہّ شیطان کو شیطنت کا اس لیے اختیار دیا گیا تاکہ جن کے دلوں میں کسی قسم کی کھوٹ اور جن کے دل حق کے بارے میں سخت ہوگئے ہیں شیطان اپنی شیطنت کے ذریعے ان کو فتنہ میں ڈالے رکھے۔ جو لوگ شیطان کے فتنہ میں مبتلا ہوئے وہ ظالم ہیں وہ حق کی مخالفت میں بہت دور جا چکے ہیں۔ یہ بات سورۃ البقرۃ کی آیت دس کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے کہ جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان کا دل روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جن میں نفاق اور دل کی سختی شامل ہے۔ دل میں منافقت پیدا ہوجائے تو آدمی حق بات کے بارے میں بھی شک کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص حق بات کے قریب ہونے کی بجائے ہر قدم دور ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ ان کے دل پر گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ“ میرے دل کو دین پر ثابت فرما۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ہم آپ پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اسے تسلیم کیا۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں! بے شک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جدھر چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔“ دل کو نیکی اور اخلاق کے حوالے سے نرم رکھنے کا طریقہ : (عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنِّی کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ ثَلاَثٍ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا وَلْتَزِدْکُمْ زِیَارَتُہَا خَیْرًا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُومِ الأَضَاحِی بَعْدَ ثَلاَثٍ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَمْسِکُوا مَا شِئْتُمْ وَنَہَیْتُکُمْ عَنِ الأَشْرِبَۃِ فِی الأَوْعِیَۃِ فَاشْرَبُوا فِی أَیِّ وِعَاءٍ شِئْتُمْ وَلاَ تَشْرَبُوا مُسْکِرًا) [ رواہ النسائی : باب الإِذْنِ فِی ذَلِکَ] ” حضرت ابن بریدہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا قبر کی زیارت سے اب اس کی زیارت کرلیا کرو۔ بے شک اس کی زیارت آدمی کو نیکی میں بڑھاتی ہے۔ میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب کھا اور بچا لیا کرو جس قدر چاہو۔ میں نے تمہیں بعض برتنوں میں پینے سے منع کیا تھا اب جونسے برتن میں چاہو پی لو۔ البتہ کوئی نشہ آور چیز پینے کی اجازت نہیں پینی۔“ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) [ مسند احمد : باب مسند أبی ھریرۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ اللہ کے ذکر سے دل نرم ہوتا ہے : ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْن﴾ [ الانفال :2] ” مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ جن کے دلوں میں حق کے بارے میں کھوٹ اور سختی ہو وہ شیطان کی شیطنت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 2۔ ظالم اور منافق کا دل حق کے بارے میں سخت ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: روحانی بیماریاں : 1۔ ریاکاری روحانی بیماری ہے۔ ( البقرۃ: 264، الماعون : 4تا6) 2۔ دل کی سختی۔ (المائدۃ: 13، الزمر :22) 3۔ کفر۔ (البقرۃ:10) 4۔ تکبر۔ (النحل : 22، لقمان : 18، النساء :172) 5۔ کجی۔ ( التوبۃ: 117، آل عمران : 7، الصف :5) 6۔ دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین :14)