وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کردیتا ہے (١) اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : رسول کریم (ﷺ) کو تسلی دینے کے ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ شیطان اور اس کے چیلے ہمیشہ سے ہی شرارتیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ رسول کریم (ﷺ) کو مخصوص انداز میں تسلی دی گئی ہے کہ میرے رسول ! آپ کو دل نہیں ہارنا۔ اس لیے کہ آپ سے پہلے جتنے نبی اور رسول مبعوث کیے گئے ان کی ذات اور کام کے ساتھ شیطانی قوتوں نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شیطان کی شیطنت کو ہمیشہ سے مٹاتا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو محکم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو اچھی طرح جاننے والا ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اس آیت میں تمنا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اہل تفسیر نے اس کے دو مفہوم لیے ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر رسول اور نبی اس بات کی خواہش اور تمنا رکھتا تھا کہ اس کی دعوت عام ہوجائے لیکن شیطان اور اس کے چیلے اس دعوت کو مٹانے کے درپے رہتے تھے۔ یہی معاملہ آپ (ﷺ) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے شیطانی قوتوں کو مٹا کر اپنے ارشادات کو استحکام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا اے نبی (ﷺ) آپ کی دعوت کو بھی پھیلاؤ اور استحکام دیا جائے گا۔ دوسرا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ جب کسی رسول اور نبی نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی تلاوت اور اس کے ابلاغ کی کوشش کی تو شیطان نے ہر پیغمبر کو الجھانے اور اس پر نازل ہونے والی وحی کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کو شیطان کے اختلاط اور وسوسے سے محفوظ رکھا اور اس پیغمبر کے ذہن میں وہی کچھ مستحضر فرمایا۔ جو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین کے ذریعے نازل فرمایا تھا۔ کچھ مفسرین نے بعض روایات سے متاثرہو کر لکھا ہے کہ ایک موقع پر شیطان نبی اکرم (ﷺ) کی زبان سے خلط، ملط الفاظ نکلوانے میں کامیاب ہوا جس وجہ سے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یہ ایسی بات ہے کہ اگر اس پر اعتماد کرلیا جائے تو قرآن مجید اور احادیث کا سارا ذخیرہ تشکیک کی نظر ہوجاتا ہے۔ ان حضرات کی اسی بات کا فائدہ اٹھا کر دشمنان اسلام نے یہ پراپیگنڈہ کیا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پر نازل ہونے والی وحی میں کبھی نہ کبھی شیطان بھی داخل انداز ہوجایا کرتا تھا۔ حالانکہ یہ بات عقل و نقل کے حوالے سے غلط ہے۔ اس آیت میں رسول اور نبی کے منصب کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر رسول نبی ضرور ہوتا تھا لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوا کرتا تھا۔ جس کی سادہ تشریح یہ ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے رسول کی شریعت کی اتباع کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح) کی تحریر من و عن نقل کی جاتی ہے۔ ” علماء نے نبی اور رسول میں درج ذیل فرق بیان فرمائے ہیں۔ یاد رہے یہ غالب احوال کے لیے ہیں ورنہ نبی اور رسول کو متبادل اصطلاح کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ آنے والے رسول کی بشارت پہلے سے دے دی جاتی ہے جب کہ نبی کے لیے ضروری نہیں ہے۔ رسول پر اللہ کی کتاب اور صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ اپنی الگ امت تشکیل دیتا ہے جب کہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا ہے۔ رسولوں کی حفاظت کی ذمہ داری براہ راست اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں۔ آپ (ﷺ) پر سترہ دفعہ قاتلانہ حملے ہوئے۔ اللہ نے بچایا ہے جب کہ کئی انبیاء کو ان کی قوم نے قتل کردیا۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ (تیسیر القرآن۔ جلد3) مسائل: 1۔ شیطان نے ہر رسول اور نبی کی دعوت میں رکاوٹ پیدا کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ شیطان کے وسوسہ سے وحی کو محفوظ رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کی بات کو مستحکم فرمایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کا علم رکھتا ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن:اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے : 1۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود :5) 2۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 3۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ :30) 4۔ ہر گرنے والا پتہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام :59) 5۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن :19) 6۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام :59)