أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
فہم القرآن : ربط کلام: جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ روح کو نور ایمان سے زندہ کرتا ہے اسی طرح وہ مردہ جسم کو دوبارہ زندگی عطا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو لوگوں کو زندہ فرمائے گا جس کی امثال پیش کی جارہی ہیں۔ ایک دنیا پرست اور کوتاہ نظر انسان کی عادت ہوتی ہے کہ جونہی اسے کوئی نعمت و افر مقدار میں میسر ہو تو اس کی فطرت بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جن نعمتوں کے ملنے کے بعد آدمی بہت جلد غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے ان نعمتوں میں اقتدار اور اختیار ایسی چیز ہے جب اس کانشہ دماغ پر غالب آتا ہے تو آدمی اپنے محسنوں کو بھول ہی نہیں جاتا بلکہ بسا اوقات ان کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ خیر خواہی کرنے والوں کو مخالف اور چاپلوسی کرنے والوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس زیادہ عرصہ اقتدار رہے تو وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ میری ذاتی صلاحیتوں اور کارکردگی کا نتیجہ ہے بالآخر وہ عملاً اپنے آپ کو خدائی مقام پر فائز سمجھتا ہے۔ نمرود جب اس خمار میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنے آپ کو زمین پر خدائی اوتارکے طور پر متعارف کروایا۔ اس قسم کے حکمرانوں کی بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہر قانون ان کے تابع ہو اور دین کا دنیاوی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کو آج کل کی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ سیاست اور دین دو متضاد چیزیں ہیں۔ دین کا ریاست اور سیاست کے معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول دین ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود سے واسطہ پڑا جو کہ نبوت کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) عوام الناس کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور کسی حکمران کے ساتھ دین کے حوالے سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ جونہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے اللہ تعالیٰ کی توحید پیش فرمائی تو اس نے اپنے سیاسی تحفظات کی بنا پر رب کائنات کی ہستی کا انکار کیا اور پھر اپنے مؤقف کے بارے میں باطل اور فرسودہ دلائل دینے لگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ میں اس خالق حقیقی کی بات کر رہا ہوں جو موت و حیات کا مالک ہے۔ اللہ کا باغی کہنے لگا یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ میں چاہوں تو جلاد کو حکم دوں کہ فلاں آدمی کو قتل کردیا جائے۔ جب جلاّد تلوار اٹھائے تو میں اسے ایسا کرنے سے روک دوں لہٰذا مارنا اور زندہ کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ اکثر مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس نے موت کی سزاپانے والے قیدی کو رہا کردیا اور رہا ہونے والے کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا تکبر اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اپنی دلیل کی لطافت سمجھانے اور اس کے ساتھ الجھنے کے بجائے یک دم فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو سورج کو مشرق سے طلوع کر کے مغرب میں غروب کرتا ہے اگر تو اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کر۔ یہ ایسی اچانک، واضح اور ٹھوس دلیل تھی جس کا وہ جواب نہ دے سکا۔ یہاں بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اگر وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہتا کہ تیرا رب سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید میں ایسا کردیتے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے دلیل کی تاب نہ لاکر نمرود اس قدر بوکھلا چکا تھا کہ اس کے حواس ٹھکانے نہ رہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بات کرنے کاسلیقہ معجزہ کے طور پر عطا ہوا تھا۔[ الشعراء :83] جب وہ اپنے مخالفوں سے بات کرتے تو لوگ ان کے سامنے دم بخود رہ جاتے تھے۔ چنانچہ نمرود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی سچے دین کی خوبی ہے کہ وہ ہر دور میں علمی برتری اور ٹھوس دلائل کے حوالے سے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور ہمیشہ بالادست رہے گا۔ جو لوگ حقائق کے سامنے لاجواب ہو کر بھی حق قبول نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا کیونکہ ہدایت کے لیے عاجزی اور سچی طلب ضروری ہوا کرتی ہے۔ مسائل : 1۔ موت و حیات کا صرف اللہ ہی مالک ہے۔ 2۔ شمس و قمر سمیت اللہ کے نظام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ 3۔ اللہ کے منکروں کو بالآخر پریشانی اٹھاناپڑتی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیربالقرآن : اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے : 1۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (آل عمران :156) 2۔ اللہ ہی موت وحیات کا خالق ہے۔ (الملک :2) 3۔ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرتا ہے۔ (آل عمران :27) 4۔ اللہ تعالیٰ مارنے کے بعد زندہ کرے گا۔ (البقرۃ:73)