سورة البقرة - آیت 255

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں۔ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جتنا چاہے، (١) اس کی کرسی کی وسعت (٢) نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : صاحب ایمان مخیر حضرات کو ان کے نیک اعمال اور صدقات کا بدلہ عطا کرنے والا اور ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ لہٰذا وہی دنیا و آخرت میں تمہارا مالک‘ خالق اور نگران ہے۔ آخرت میں کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکے گا۔ البتہ دنیا میں اس نے بطور آزمائش تمہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اس آیت مبارکہ کو آیت الکرسی کہا گیا ہے۔ کچھ اہل علم نے کرسی کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اقتدار لیا ہے لیکن صحابہ اور تابعین کی اکثریت نے اس سے مراد کرسی لی ہے۔ اس آیت کی عظمت و فضیلت کے بارے میں رسول کریم (ﷺ) نے ابی بن کعب (رض) سے یوں ارشاد فرمایا : ” اے ابو منذر! تجھے علم ہے کہ کتاب اللہ کی عظیم آیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے پھر دریافت فرمایا ابو منذر! تو جانتا ہے کہ قرآن کی عظیم آیت کونسی ہے؟ ابی بن کعب کہتے ہیں میں نے جواباً عرض کیا کہ ﴿أَللّٰہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ (یعنی آیت الکرسی) آپ نے میرے سینے پرتھپکی دیتے ہوئے فرمایا اے ابو منذر! اللہ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا] اس عظیم آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبودِ حق ہونے کی چودہ صفات بیان فرمائی ہیں جو انسان، جنات، ملائکہ اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ گویا کہ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے بے مثال، لازوال اور لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ” اللہ“ کے بارے میں امام رازی نقل کرتے ہیں کہ یہ ” اَلَھْتُ اِلَی فُلاَنٍ“ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ہیں ” سَکَنْتُ اِلٰی فُلاَنٍ“ یعنی وہ ہستی جس کے نام سے سکون حاصل کیا جائے اور وہ معبود برحق ہے۔ زمین و آسمان اور پوری کائنات میں اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہی اِلٰہ واحد ہے۔ اہل علم نے لفظ اِلٰہ کے جتنے مصادر بیان کیے ہیں ہر ایک کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور الوہیت کا کامل تصور رکھتا ہے۔ جس کے معانی ہیں اونچی شان والا، کائنات کی نظروں سے پوشیدہ، سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور جس کی ذات سے پناہ طلب کی جائے۔ جس سے سب سے زیادہ محبت کی جائے اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ اکیلا ہی عبادت کے لائق، ہمیشہ زندہ رہنے والا اور ہر چیز کو حیات بخشنے والا، ہر دم اور ہر لحاظ سے قائم رہنے والا اور جب تک چاہے کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا۔ ایسی ذات جسے نہ اونگلاہٹ آئے اور نہ ہی اس کی ذات کے بارے میں نیند کا تصور کیا جا سکے۔ زمین و آسمان میں ذرّہ ذرّہ اسی کی ملکیت ہے۔ اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بات اور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہوچکا‘ جو موجود ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے علم سے کوئی کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا سوائے اس کے جسے وہ خود کچھ عطا کرنا چاہے۔ اس کا اقتدار اور اختیار زمین اور آسمانوں پر ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہیگا۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی حفاظت سے اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ اکتاہٹ۔ وہ اپنے مقام و مرتبہ اور ذات و صفات کے لحاظ سے بلند و بالا اور رفعت و عظمت والا ہے۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی مانع ہے۔[ صحیح الجامع الصغیر للألبانی :6464] حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے صدقۂ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ ایک شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم (ﷺ) کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا میں محتاج، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آپ (ﷺ) نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ! اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ (ﷺ ) کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج اور عیالدار ہوں آئندہ نہیں آؤں گا۔ مجھے پھر رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے مجھے پوچھا ابوہریرہ تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یارسول اللہ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا مجھے رحم آگیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا خیال رکھناوہ جھوٹا ہے وہ پھر آئے گا۔ چنانچہ تیسری بار میں تاک میں رہا وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں؟ کہنے لگا جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ (ﷺ) نے مجھ سے پوچھا تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا؟ میں نے آپ (ﷺ) کو ساری بات بتلادی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ (ﷺ) نے مجھ سے کہا ابوہریرہ (رض) جانتے ہو تین راتیں کون تمہارے پاس آتارہا ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : وہ شیطان تھا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک الوکیل شیئا الخ] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے پہلے اور بعد کے حالات جانتا ہے۔ 2۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کے علم سے کوئی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے : 1۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ کی ذات کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن :27) 2۔ اللہ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہوجائے گی۔ (القصص :88) 3۔ اللہ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید :3) قیامت کے دن سفارش کے اصول : 1۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ:255) 2۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا :38) 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ:109) 4۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس :3) 5۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم :87) 6۔ اگر رحمن نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس :23) 7۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر :48) 8۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء :28)