سورة الأنبياء - آیت 104

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے دفتر میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں (١) جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے (ہی) رہیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 104 سے 106) ربط کلام : جس دن بروں کو سزا اور نیک لوگوں کو جزا دی جائے گی اس کی ابتداء اس طرح ہوگی۔ جب پہلا صور پھونکا جائے گا تب قیامت برپا ہوجائے گی۔ ہر چیز فنا اور ہر نفس ختم ہو جائےگا۔ اس کے بعد زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور آسمان کو تحریر شدہ کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ اسی حالت میں کردیں گے جس حالت میں پہلے تھی یعنی دنیا کی ہر چیز ختم کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسا ضرور کرے گا کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ یہ وعدہ ہے جسے ہم ضرور پورا کریں گے زمین کے وارث نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل کی گئی، کتاب زبور میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ زبور کا اس لیے ذکر ہے کہ انبیاء کرام میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے نبی ہیں جو بیک وقت نبی اور باضابطہ حکمران بنائے گئے تھے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اپنے رب کی غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن آسمان کے لپیٹے جانے کی نوعیت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے جس طرح کھلے کاغذات کو لکھنے والا اپنی تحریر سے فارغ ہونے کے بعد سلیقے کے ساتھ اوپر، نیچے رکھ کر ایک دستے کی شکل دیتا ہے۔ یا بڑے کاغذات کو رول بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسی انداز میں آسمانوں کو تہہ بہ تہہ جوڑ کر ایک طرف رکھ دیں۔ اس کے بعد نیک لوگوں کونئی زمین یعنی جنت کا وارث بنایا جائے گا۔ کچھ جدت پسندوں نے اس آیت کا من ساختہ مفہوم لے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ﴿ صَالِحُوْنَ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اقتدار سنبھالنے اور مستحکم نظام چلانے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں اور انہیں ہی حکمران بنایا جاتا ہے۔ یہ ایسا معنی ہے جو سراسر انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی جدوجہد کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد دنیا کا اقتدار لیا جائے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (ﷺ) کو وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیونکہ فرعون نمرود اور قریش مکہ سے بڑھ کر کس کا نظام مستحکم ہوسکتا ہے۔ جدت پسندوں کا استدلال اس لیے بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ دنیا میں صالح لوگوں کو اقتدار خال خال ہی نصیب ہوا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم اس کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب اس دنیا کو ختم کرکے ایک نئی دنیا معرض وجود میں لائی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تبدیل شدہ زمین کا وارث نیک لوگوں کو بنائے گا۔ جسے جنت قرار دیا گیا ہے اور اسی کا جنتی شکرانے کے طور پر اظہار کریں گے۔ گویا کہ وہ یہ زمین نہیں بلکہ جنت کی زمین ہوگی۔ ﴿وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ﴾ [ الزمر :74] ” وہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے اپنے وعدے کو سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جس مقام میں چاہیں رہیں کتنا اچھا اجر ہے نیک عمل کرنے والوں کا۔“ کچھ مفسرین نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا کہ زمین سے مراد جنت نہیں بلکہ یہ زمین ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ مفسروں نے اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس جنت کا قرآن ذکر کرتا ہے وہ آسمان پر نہیں بلکہ زمین میں چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ تصور بھی قرآن اور حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ نبی (ﷺ) کو جنت اور جہنم کا مشاہدہ آسمانوں پر کروایا گیا تھا نہ کہ زمین پر۔ اللہ تعالیٰ جنت کا وارث صالح لوگوں کو بنائے گا۔ اس کے لیے 105آیت پیش کی جاتی ہے۔ جس کا بظاہر ان آیات کے ساتھ سیاق وسباق نہیں ملتا۔ تاہم اگر کوئی اس آیت سے مراد دنیا کی خلافت لیتا ہے تو صالح سے مراد صرف توحید کے قائل اور نماز، روزہ کرنے والے نیک لوگ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ صالح لوگ ہیں جو دین کے انفرادی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اس کے اجتماعی تقاضے بالخصوص جہاد اور اتحاد کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں گے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن آسمانوں کو کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کرنے کا وعدہ ہر صورت پورا کرئے گا۔ 3۔ جنت کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن: جنت میں داخل ہونے والے حضرات کے اوصاف : 1۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : 14، حم السجدۃ:30) 2۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ:82) 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (النساء :13) 4۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (الرحمن :46)