سورة الأنبياء - آیت 74

وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَت تَّعْمَلُ الْخَبَائِثَ ۗ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھی حکم اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات دی جہاں لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے۔ اور تھے بھی وہ بدترین گنہگار۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 74 سے 75) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے اور نبی حضرت لوط (علیہ السلام) کا تعارف۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ نے اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید فرمائی جب عوام اور حکومت نے متفقہ فیصلہ کر کے آپ کو آگ میں جھونک دیا تھا۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صحیح وسالم آگ سے نکالا تو کوئی بھی ایمان نہ لایا سوائے لوط (علیہ السلام) کے۔ ” لوط (علیہ السلام) کے سوا ابراہیم (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کی طرف ہجرت کررہا ہوں یقیناً اللہ عزیز اور حکیم ہے۔“ [ العنکبوت :26] حضرت لوط (علیہ السلام) عراق کے قدیم ترین شہر ” اُر“ میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے یہی شہر جناب خلیل (علیہ السلام) کا مولد ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کرنے والے لوط (علیہ السلام) تھے۔ آپ پہلے حاران پھر مختلف مقامات پر ٹھہرے۔ بالاخر ابراہیم (علیہ السلام) نے فلسطین میں قیام فرمایا اور مختلف ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کیے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اندرون حجاز حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین و شام میں اور جناب لوط (علیہ السلام) کو شرقی اردن کے مرکزی شہر سدوم میں تعینات فرمایا۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پرلے درجے کے فاسق وفاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردار لوگ تھے۔ جنہوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہ کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا۔ اسی بات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔